جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں ۔1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ کئی بار حالات جنگ کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کشمیر، آبی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ، سرحدی خلاف ورزیاں اور سفارتی کشیدگی مستقل بنیادوں پر موجود رہتی ہے۔ بھارت کی جانب سے حالیہ برسوں میں جارحانہ پالیسی، سرجیکل اسٹرائیک جیسے دعوے، لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں اورحالیہ دنوں میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے مبینہ دہشت گرد حملے کے فوری بعد بھارت نے حسبِ روایت بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزامات عائد کر دیے،جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے بلکہ بین الاقوامی سفارتی آداب کے بھی منافی ہے۔مسئلہ کشمیرگزشتہ 75 سالوں سے برصغیر کے امن و استحکام کےلئے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔یہ صرف زمین کا تنازعہ نہیںبلکہ لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے حقِ خودارادیت، ان کی ثقافت، مذہب، اور زندگی کے حق کا مسئلہ ہے۔بھارت کی ہڈدھرمی، عالمی طاقتوں کی مسلسل بے حسی، دوہرے معیار، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اب یہ مسئلہ پرامن حل کی حدود سے باہر ہوتا جا رہا ہے جبکہ کشمیر پاکستان کے نظریاتی، جغرافیائی اور دفاعی وجود کا حصہ ہے۔پاکستان کا قیام ”لا الہ الا اللہ” کے نظریے پر ہوا، کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی ”شہ رَگ” قرار دیا، جو اس کی نظریاتی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔کشمیر پاکستان کے شمال میں واقع ہے اور دریا¶ں کا منبع ہے۔پاکستان کے بیشتر دریا کشمیر سے نکلتے ہیں، جن پر بھارت قابض ہے۔ بھارت ان آبی وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے تو پاکستان ”آبی قحط” کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے کشمیر پاکستان کی جغرافیائی سلامتی اور زرعی معیشت کےلئے نہایت اہم ہے ۔کشمیر کی سرحدیں چین، بھارت اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ کشمیر بھارت کے قبضے میں رہتا ہے تو بھارت کو اسٹریٹجک برتری حاصل ہو جاتی ہے، جو پاکستان کی قومی سلامتی کےلئے خطرہ ہے۔ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق، دفاعی توازن کےلئے ناگزیر ہے ۔ اقوامِ متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر درجنوں قراردادیں منظور کیں، جن میں کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دینے کی بات کی گئی پرآج تک نہ صرف ان قراردادوں پر عمل نہیں ہوابلکہ عالمی طاقتیں بھارت کی معیشتی اور اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے جان بوجھ کر خاموش ہیں۔امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین انسانی حقوق کے دعوے تو کرتے ہیںپر بھارت کی کشمیر میں بربریت پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔اس بے عملی نے کشمیری عوام اور پاکستان میں یہ تاثر مضبوط کر دیا ہے کہ اب صرف عسکری قوت کے ذریعے ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔پاکستان ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے پراپنی قومی سلامتی ، کشمیری عوام کے حقوق کے تحفظ کےلئے اب وہ صبر کی حد سے گزر رہا ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنے مظالم بند نہیں کرتا اور عالمی برادری خاموش رہتی ہے، تو پاکستان کے پاس فیصلہ کن جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔کشمیر پاکستان کےلئے محض ایک زمینی تنازعہ نہیں بلکہ بقائ، نظریہ اور خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ عالمی طاقتیں اپنی منافقت ترک نہیں کرتیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کرتیں تو جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کی دہلیز پر کھڑاہے۔اکثریت کایہ خیال ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان اپنے عزم کو عملی شکل دے کیونکہ ظلم کیخلاف خاموشی، مزید غلامی کا راستہ کھولتی ہے ۔ گزشتہ25سال سے دہشتگردی کےخلاف لڑتے لڑتے پاکستان اب فیصلہ کن جنگ کےلئے ذہنی و عسکری طور پر تیار نظر آتا ہے ۔ بھارت نے جنگ شروع کی تو پاکستان فوری منہ توڑ اور فیصلہ کن جواب دےگا ۔پاکستانی پرامن اور پر خلوص قوم ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم جنگ کو پسندیدہ نہیں سمجھتے۔دشمن ہماری خودمختاری، سلامتی اور وقار پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت عسکری اور عددی برتری کے گھمنڈ میں آ کر جنگ کی غلطی کرتا ہے تو اسے ایک فیصلہ کن، منہ توڑاور شدید جواب ملے گا ۔ 75 سال یعنی پونی صدی صبروتحمل کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزارنے والے پاکستانی اب ہلکی پھلکی جھرپوں کے بجاے فیصلہ کن جنگ کے موڈمیں بھی ہیں اور مکمل تیاری کے ساتھ پوری طرح فٹ بھی ہیں ۔یہاں یہ واضح کرناانتہائی اہم اورضروری ہے کہ فیصلہ کن جواب سے مرادیہ ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ جارحانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے ، بھارت کوایسے ایسے جنگی سرپرائزملیں گے کہ جوپوری دنیاکےلئے نئے اورانوکھے ہوں گے ۔بھارت جنگ چھیڑتا ہے تو اسے صرف پاکستان سے نہیں بلکہ اندرونی بغاوتوں، معاشی دبا¶، عالمی تنہائی اور عوامی ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑےگا ۔ شمال مشرقی ریاستوں اور پنجاب میں علیحدگی پسند تحریکیں مضبوط ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کی افواج ، عوام اور قیادت ہر ممکن قربانی دینے کےلئے تیار ہیں”فیصلہ کن جواب” محض الفاظ نہیں،بلکہ ایک حقیقت ہے جو دشمن کے ہر قدم کو روکنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔