Site icon Daily Pakistan

قرضوں کے نام پراستحصال

یہ ایک روایت ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن نے ہمیشہ برملا طور پر امریکہ کو پاکستان کا نااعتبار دوست ٹھہرایا ہے ،لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوںنے ہمیشہ امریکہ کی چھتری میں حکومت کرنے میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔ اس تناظر میں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ روز اول سے ہم سامراج کے حق میں استعمال ہوئے ہیں اور آج بھی سامراج کے ہاتھ کے کھلونے ہیں ایک تسلسل کے ساتھ ہم آگے کے جانب بڑھ رہے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اتحادی کے طور پر مشہور ہیں ، اور سرمایہ دارانہ نظام کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔یہ کہنا کہ موجودہ حکمران اس راستے پر چل پڑے ہیں درست نہیں ان کے لیئے تو اس راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ملک کو موجودہ ڈگر پر چلانے کیلئے اسے بہر حال اس راستے پر چلنا ہوگا جس کے نقوش ماضی کے حکمرانوں نے چھوڑے تھے اگر نہیں تو اسے واضح توطور پر دھمکی دی جاتی ہے کہ اسے پتھرکے دور میں پہنچادیا جائیگا اسے بہر حال ملک تو بچانا ہے کیونکہ یہ پتھر کا نہیں کمپیو ٹر کا دور ہے اور جو نئی حکومت بنے گی وہ بھی اس راستے پر چلے گی جس کے نشانات سابقہ حکمرانوں نے چھوڑے ہیں ۔ حکمران جو بھی ہو موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے خارجہ اور داخلہ کی پالیسیاں وہی رہے گی غربت میں اضافہ ہوگا اور مھنگائی بڑہے گی اور شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے مئی 1950ءکو امریکہ کا وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے اپنا پہلا دورہ کیا تھا اس دورے کا مقصد انہوںنے پاکستان کیلئے دفاعی امداد کا حصول قرار دیا تھا جس کیلئے اکتوبر 1947ءمیںپاکستان امریکہ سے مطالبہ کر چکا تھا ۔ آئندہ پانچ سال کی ضروریات کےلئے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے دو ارب ڈلر کی امداد کی ضرورت ہوگی چنانچہ وزیر اعظم لیاقت علی خان اس عزم اور ارادے سے امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے تھے اور بظاہر کامیاب لوٹے تھے ۔وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے پہلے دورے میں امریکی حکام سے اپنی بات چیت میں انہیں یہ باور کرایا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت سے جڑا رہے گا اور اس نظام کے استحکام کےلئے امریکہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا رہیگا اور انہوںنے امریکہ کو یہ بھی یقین دلایا کہ” ہم جانتے ہیں کہ آپ جارحیت کا مقابلہ کرنے کا عزم کر چکے ہیں اس کام میں آپ پاکستان کو اپنا دوست پائینگے ©©“ چنانچہ ان کی اس یقین دہانی کے بعد پاکستان کا ہر حکمران ان کے اس عہد کو نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرسکتا ہے اور اس طرح پاکستان اور امریکہ کی دوستی قائم اور دائم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا سفر جاری ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جنوبی کے حوالے سے امریکی قومی سلامتی کونسل نے جنوری 1951ءکو یہ قراداد منظور کر کی تھیاور اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین نے اس پر دستخط ثبت کئے تھے کہ ہمیں جنوبی ایشا میں ایک ایسا رویہ چائیے جو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی اس بات میں مدد کریں زمانہ امن میں جن چیزوں کی خواہش ہوتی ہے انہیں اور اور زمانہ جنگ میں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے انکو اس علاقے سے حاصل کر سکےں اور ان میں سے کوئی چیز سویت یونین حاصل نہ کر سکے ۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے اس قراداد کی روشنی میں اگر اپنی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے جنگ اور امن ہر دو حالات میں ہمیں استعمال کیا ہے اگر چہ امریکہ نے ہمیں فوجی امداد دی اور اقتصادی قرضے بھی عنایت کئے لیکن اس کے بدلے میں ہماری آذادی سلب کی گئی اور ہمیں آلہ کار بنا کر اس نے ہمیں کمیونزم کے خلاف استعمال کیا اور سویت یونین کا راستہ روکنے کی کوشش کی اس طرح امریکہ نے دو فوائد حاصل کئے ایک یہ کہ اس نے یہاں اپنا معاشی اور سیاسی تسلط قائم کیا اور دوسرا یہ کہ اس نے سوویت یونین کے خلاف ہمیں استعمال کیا اور زبردست کامیابی حاصل کی ۔ ہمارے وزیر اعظم کے پہلے دورہ امریکہ کے بعد اسی سال میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کا فوجی ساز وسامان خریدنے کا معاہدہ ہوا اور اس کے دو سال بعد مزید معاہدات ان دونوں دوستوں کے درمیان طے پاگئے اور یوں دوستی کا سفر جاری ہوا جو آج تک جاری ہے اور آج بین الاقوامی دنیا میں ہماری شناخت بھی امریکہ کے دوست کی حیثیت سے مشہور ہے اور یہ ہماری پہچان ہے اور اس دوستی میں مزید گرم جوشی اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان 1954¾¾ءکو کا ممبر بنایا گیا اور ایک سال بعد 1955ءمیں سینٹو کا رکن بنا ان معاہدات میں شمولیت سے ہم امریکہ کے تو قریب ہوگئے مگر پڑوسیوں کی نظروں ہم ناقابل اعتبار ٹھہرگئے ہماراتعارف سامراج کیلئے ایک آلہ کار کی حیثیت سے مشہور ہوا سامراجی مفادات کو اپنا نصب العین بناکر اپنے خطے کے ممالک کو ہم نے اپنادشمن بنا لیا اور یوں ہمارا ملک ناعاقبت اندیش اور آلہ کار قیادت کی وجہ سے سامراج کے حق میں خوب استعمال ہوا اور تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ فرعونی طرز سیاست کو اپنا کر اپنے عزائم کے پورا کیا ہے ،فرعون نے بھی تقسیم کرو اور حکومت کرو والا فارمولا اپنایا تھا اور اسی فارمولے پر ہر دور میں سامراج نے بھی خوب عمل کیا ہے چنانچہ امریکہ نے ایک طرف کمیونزم کا ہوا کھڑا کر کے اس کا راستہ روکنے کیلئے کسی دور میں انتہا پسند مذہبی تحریکوں جماعتوں کی آکی نشوونماں کی اور انہیں پروان چڑھایا اور انہیں اسلحہ اور بود وباش فراہم کی سرد جنگ کے دوران امریکہ نے یہ حربہ خوب اپنایا جو کامیاب رہا اور جو بھی راستہ میں مزاحم ہوا اسے منظرہی سے ہٹادیا گیا اور یا عوام الناس میں اسکی حیثیت ہی مشکوک بنادی گئی جیسے سعودی عرب کے شاہ فیصل اور پاکستان میں ذولفقار علی بھٹواور صدام حسین جیسے لیڈروں کو راستے سے ہٹادیا گیا اور مصر کے جمال عبد الناصر فلسطینی لیڈر یاسر عرفات اور شام کے حافظ الاسد کی کردار کشی کی گئی اور ان کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا اور ان پر فتوے وغیرہ داغے گئے ر انہیں مطعون کیا گیا۔ایک طرف امریکہ نے تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی اور دوسری طرف اس نے ہماری معیشت کو نشانہ بنایا اور ملک کی سیاست کو کمزور کیا اس مقصد کیلئے اس نے اپنے سیاسی اور بیوروکریسی کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہماری سیاست امریکہ کی تابع ہوگئی اور اور معاشی طور پر ہم مفلوج ہوگئے امداد اور قرضوں کے نام پر ہمارا استحصال کیا گیا اور یوں غریبوں کے نام پر حاصل کیا گیا قرضہ ملک کی غربت کا باعث ہوا ملک کی مصنوعات کو فیل کردیا گیا اور پورا ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تابع ہوگیا اور یوں امریکہ کے ساتھ ہمای دوستی کی پینگھیں گلے کا روگ بن گیا اور محتاجی ہمارا مقدر ٹھہر گئی ہے۔

Exit mobile version