Site icon Daily Pakistan

لاپتہ افراد یا گمنام دیشت گرد

baqir

(آغا قمر)

دنیا میں ٹیکنالوجی کی ترقی، آبادی کے اضافے اور کشمکش کے بڑھ جانے کی وجہ سے جنگوں کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔  ماضی میں جنگ بالعموم ریاستی فوجیں لڑا کرتی تھیں اور ان  جنگوں میں صرف دوست اور دشمن ہوتے تھے یا پھر دوستوں میں کوئی غدار لیکن پھر یہ تفریق معدوم ہونے لگی۔  فورتھ جنریشن وار فیئر میں قومی ریاست سے پہلے کا تصور لوٹ آیا یعنی جنگ صرف ریاست کی فوجوں کے درمیان ہی نہیں لڑی جائے گی بلکہ اس میں غیر ریاستی عناصر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا وہ شامل ہو سکتے ہیں۔ پھر ففتھ جنریشن وارفیئر کا زمانہ آیا اور نہ صرف جنگ کے فریقین بلکہ لڑنے کے طریقوں میں بھی تنوع سامنے آگیا ۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کی سادہ ترین تعریف یہ ہو گی کہ ایسی جنگ جوفقط  میدان جنگ میں نہ لڑی جائے بلکہ انٹرنیٹ، میڈیا، سوشل میڈیا، اور ایسے دوسرے ذرائع سے بھی لڑی جا رہی ہو۔  اور اب ہائبریڈ یا مخلوط جنگ کا دور ہے۔ ہائبریڈ جنگ میں ریاستی فوج بھی شامل ہو سکتی ہے اور غیر ریاستی گروہ یا عناصر بھی۔ اپنے ملک کے رضا کار بھی اور دشمن کے ملک میں بیٹھے ہوئے کرایے کے جنگجو یا غدار بھی ۔ یہ طریقہ جنگ روایتی اسلحے سے بھی پرہیز نہیں کرتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے افواہ سازی یا جھوٹ پھیلانے کی طاقت کوبھی استعمال کرتا ہے۔ فوج اور عام شہری کے فرق کو بھی مٹاتا ہے اور ظالم و مظلوم یا دہشت گرد و دہشت زدہ کے فرق کو بھی مٹا کر رکھ دیتا ہے۔

اس تمہید کی غرض یہ تھی کہ گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے گوادر پورٹ  اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ایک کوشش کو ناکام بنایا ہے۔تفصیلات کے مطابق اس حملے کو ناکام بنانے کی کوشش کے دوران ہونے والےفائرنگ کے تبا دلے میں آٹھ دہشتگرد جہنم واصل  ہوئے جبکہ  سیکیورٹی فورسز کے دو جوان بھی  شہید ہوئے۔ یہ ہلاک ہونے والے دہشتگرد علاقے میں متعدد دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر ہونے والے اس حملے میں کالعدم تنظیم ”بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد“ کے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔

 اصل کہانی جو عام آدمی کے لیے تو حیرت انگیز ہے لیکن  حقیقت حال جاننے والوں کے لیے نہیں وہ یہاں سے شروع ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بی ایس او آزاد کریم جان نامی ایک شخص کے بارے میں واوہلا کر رہی تھی کہ وہ 25 مئی سن 2022ء کو لاپتہ ہو گیا تھا۔ لیکن ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت کے دوران پتہ چلا کہ ان میں ایک لاش اسی کریم جان کی تھی جس کو بی ایس او آزاد لاپتہ قرار دے کر اس کے حق میں احتجاج کر رہی تھی۔ اس  سے قبل  ایک اور  دہشتگرد امتیاز احمد ولد رضا محمد بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا جوبعد میں دہشثگردی کے ایک واقعے کو ناکام بنانے کی کوشش کے دوران  سیکیورٹی فورسز کی کاروائی میں مارا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عبدالودود ساتکزئی نامی ایک شخص جس کی بہن 12اگست2021سے بھائی کی گمشدگی کا رونا رو رہی تھی بھی اسی طرح مچھ حملے میں مارا گیا تھا۔

یہ ہے ہائبرڈ وار فیئر جس میں فورتھ اور ففتھ جنریشن دونوں وار فیئرز بیک وقت آزمائے جاتے ہیں۔یعنی غیر ریاستی عناصر کو خریدو یا برین واش کرو، پھر ان کو منظر سے ہٹاؤ اور ان کی گمشدگی کا جھوٹ پھیلا کر فوائد حاصل کرو اور ہمدردیاں سمیٹو اور پھر وقت آنے پر انہی افراد کے ذریعے سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بناؤ۔

کیسا ظالمانہ طریقہ ہے کہ آپ نے جن اشخاص کو خریدا وہ جب تک استعمال نہیں ہوتے اس وقت تک بھی عوام میں بے چینی، نفرت اور عدم تحفظ پھیلانے کا باعث اور جب استعمال ہو جائیں تو دہشت پھیلانے کا باعث اور جب اس کی شناخت ہو جائے تو یہ پرپیگنڈہ کر کے دامن جھاڑ لو کہ یہ تو پہلے سے ہی لاپتہ تھا خود ہی مار کر دہشت گردوں میں ڈال دیا ہو گا۔

اس سفاکانہ جنگ میں کامیابی کا سہرا صرف ان کے سر نہیں جاتا جو براہ راست استعمال ہوتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے والے، بے بنیاد خبریں چھاپنے والے ، لاپتہ افراد کے نام پر سیاست چمکانے والےاور انسانی حقوق کے نام پر واویلا کرنے والے بھی اس خونی جنگ کے فوجی ہی ہوتے ہیں اور اس جنگ میں ان کا بھی برابر کا حصہ ہوتا ہےاور یہ معصوم بلوچ نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر، لالچ دے کر یا جذبات میں مغلوب کر کے استعمال کرتا ہے اور پھر ان کو دہشت گرد بنا کر چھوڑتا ہے۔

اس وارفیئر کے پیچھے بیرونی ریاستی عناصر کے ساتھ ساتھ  بی ایل اے اور  بی ایس او آزاد جیسے اندرونی غیر ریاسی و دہشت گرد عناصر بھی شام ہیں اور ان کا ایک ہی مشترکہ مفاد اور مقصد ہے کہ نوجوان نسل بالخصوص بلوچستان کے نوجوان کو گمراہ کر کے بد امنی ، دہشت اور نفرت کو پھیلایا جائے اور یوں پاکستان کو جو معاشی بحران سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہے کمزور و ناکام کیا جا سکے۔

Exit mobile version