کالم

لاہور کی متوقع اوسط زندگی میں 8 سال کمی

ajaz-ahmed

گزشتہ دنوں رفاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے شیخ زید ہسپتال کے تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لاہور میں ہوائی آلودگی کی وجہ سے اس شہر کے باسیوں کی متوقع اوسط زندگی میں8 سال تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت ماحولیاتی آلودگی میں لاہور نمبر(1 ، پشاور نمبر 2 (، مریدکے نمبر3 (جبکہ فیصل آباد نمبر (4 پر ہے ۔عالمی اعداد وشمار کے مطابق آلودگی میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور چاڈ کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے۔ آلودگی کی وجہ سے جو انتہائی پیچیدہ اور مضر صحت بیماریاں پھیل رہی ہے اُس میں کینسر، امراض قلب، پھیپھڑوں کا سرطان، جلدی امراض، پھیپڑوں کی انتہائی مضر بیماری COPD،سانس کی بیماری اور نمونیا شامل ہے۔ اگرہم تجزیہ کریں تو جو جو ممالک غریب ہیں اور ماحولیاتی آلودگی سے دوچار ہیں وہاں پر متوقع اوسط زندگی انتہائی کم ہے ۔ مثلالیستو کی اوسط متوقع زندگی 45 سال ، سری لون اور زمبابوے کی اوسط متوقع زندگی 46 سال ہے۔جبکہ اسکے بر عکس وہ ممالک جو خوشحال، ترقی یافتہ اور آلودگی سے صاف ہیں وہاں پر اوسط متوقع زندگی بُہت زیادہ ہے۔ مثلا مناکو کی اوسط متوسط زندگی 90 سال، جاپان کی اوسط متوقع زندگی88 سال ، سنگاپور کی متوقع زندگی 87 سال جبکہ جرمنی اور ہانگ کانگ کی اوسط متوقع زندگی 83 سال ہے۔جبکہ پاکستان میں اوسط متوقع زندگی67 سال ہے۔ اوروطن عزیز میں اوسط متوقع زندگی کو جنگلات میں بڑھوتری کی وجہ سے بڑھایا جایا سکتا ہے۔ اگر ہم غور کرلیں تو مندرجہ بالا جتنی امراض ہیں وہ حکومت کی نااہلی ، بد انتظامی ، غُربت اورجنگلات کی کمی کی وجہ سے ہے مگر اُس میں سب سے بڑی اور اہم وجہ جنگلات کی کمی ہے۔بین الاقوامی اعداد وشمار کے مطابق کسی ملک کے صحت مند آب وہوا اور بیماریوں پاک ماحوال کےلئے ملک کے 33.5 فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئے ۔ مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں 4.5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جس سے ایک صحت مند ماحول پروان نہیں چڑھ سکتا۔ماہرین کے مطابق ایک مکمل درخت سال میں 25 کلو گرام مضر صحت گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے جبکہ اتنی ہی مقدار میں برابر انسان دوست گیس آکسیجن چھو ڑتا ہے۔اگر ہم قُرآن مجید فرقان حمید کے بابرکت اورمبارک تعلیمات پر نظر ڈالیں تو خداوند لایزال اور حضور ﷺ نے بار بار جنگلات اور درخت لگانے کی سختی سے حکم دیا ہے ۔اگر ہم واقعی ایک انسان دوست ماحول کو پروان چڑھانا ہے اور وطن عزیز کے عوام کی اوسط زندگی بڑھانا چاہتے ہیں اور مختلف قسم کی اذیت ناک بیماریوں سے چٹکارہ حاصل کرنا ہے ۔تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ جنگلات لگانا چاہئے اور مخکمہ جنگلات کے اہلکار ، پولیس اور عوام جوبےدردی سے جنگلات کو تباہ و برباد کر رہے ہیں اور انکو کاٹ رہے ہیں انکا تدارک کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں جنگلات والے علاقوں میں متبادل توانائی کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ لگانا چاہئے اور انکو فروع دینا چاہئے۔میں اس کالم کے توسط سے پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حکومت پر زیادہ انحصار نہ کریں بلکہ خود اپنے وسائل سے درخت اور جنگلات لگائیں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ جنگلات اور درخت کاٹنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینا چاہئے ۔ جس سے گلوبل وارمنگ او سطح زندگی میں کافی کمی واقع ہوگی ۔سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کورسز میں درخت اورجنگلات لگانے سے مطلق مضامین شامل ہونی چاہئے ۔علاوہ ازیں وطن عزیز کے علمائے کرام، مشائخ اور مذہبی سکالروں کو استدعا کر نا چاہئے کہ وہ اپے خطبات میں جنگلات لگانے اور ترغیب پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہئے۔ این جی اوز اور دوسرے عوام دوست متحرق اداروں کو ملک میں جنگلات لگانے کےلئے ترغیب دینا چاہئے۔سکولوں کالجوں اور ملک کے سرکاری اداروں کو جنگلات لگانے کی زیادہ سے توجہ دینا چاہئے ۔ اہم خداوند لایزال کے نظام میں بگاڑ پیداکریں گے تو اس سے ہمیں اور ہمارے ماحولیات کو کافی نقصان پہنچتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri