Site icon Daily Pakistan

لا پتہ افراد کیس، وزیر اعظم کا معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی کنونشن سنٹر میں ورکرز کنونشن کی اجازت نا دینے سے متعلق درخواست پر سماعت کی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو کر لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف آنے والے تمام راستے بند کردیے گئے جبکہ کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا، اس موقع پر وزیر اعظم کا سیکیورٹی اسٹاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود رہا۔
کیس کی سماعت کے لیے لاپتا افراد کے لواحقین عدالت پہنچے، لاپتا صحافی مدثر نارو کا کم سن بیٹا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا جہاں شہباز شریف نے ان سے ملاقات کی، دریں اثنا آمنہ مسعود جنجوعہ بھی عدالت پہنچیں
سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف لاپتا افراد کے کیس میں اسلام آباد ہائِکورٹ کے سامنے پیش ہو گئے۔ وزیر اعظم کی لاپتا افراد کیس کو حل کرنے کی یقین دہانی ۔۔ کہا وہ عوام اور اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تکالیف کا ازالہ کرے۔۔ حراستی مراکز قائم ہیں جہاں سے لوگ بازیاب ہوئے ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے اور کئی ماہ سے اس کورٹ میں چل رہا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے اس ملک میں 9 سال حکمرانی کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا، یہ عدالت تفتیشی ایجنسی نہیں ہے، بہت دفعہ عدالت نے یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجا، کابینہ نے کوئی ایسا رسپانس نہیں دیا جو آنا چاہیے تھا۔
ملک کے مسائل تب حل ہوں گے جب آئین مکمل بحال ہو گا: چیف جسٹس اطہر من اللہ
انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک کمیٹی بنائی، یہ آئینی عدالت ہے، یہ معاملہ صرف کمیٹی کا نہیں، لاپتا افراد کے لیے کمیشن بنا، لاپتا افراد کی فیملی بیٹھی ہیں انہوں نے کمیشن کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں، ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں، لوگ بازیاب ہوئے لیکن کبھی کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی، اس سے بڑا ایشو کوئی بھی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا کمیشن بنا اور اس کی پروسیڈنگ جو سامنے آئیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تکالیف کا ازالہ کرے، حراستی مراکز قائم ہیں جہاں سے لوگ بازیاب ہوئے لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ تاثر ہماری قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اس عدالت میں بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتا کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے، عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے، آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، یا تو آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اصل شکل میں بحال نہیں، اس ملک کی نیشنل سیکیورٹی آپ کے ہاتھ میں ہے، ملک میں گورننس کے بھی بہت ایشوز ہیں، اس ملک کے مسائل تب حل ہوں گے جب آئین مکمل بحال ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سویلین ایگزیکٹو کنٹرول میں ہیں، اس کورٹ کو آپ پر اعتماد ہے، جب چھوٹا بچہ کورٹ آتا ہے تو عدالت کس کو جوابدہ کرے، اس وقت کے پرائم منسٹر سے بھی بچے کی ملاقات کرائی گئی، آپ اس کورٹ کو حل بتا دیں کہ مسنگ پرسنز کیس میں کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا یہ میری ڈیوٹی تھی کہ عدالت کے کہنے پر پیش ہوتا، یو این کے سیکرٹری جنرل پاکستان میں ہیں، میری ان کے ساتھ ملاقات تھی لیکن جب مجھے عدالت کا حکم ملا تو میں نے کہا کہ کورٹ جاؤں گا۔
ان کا کہنا تھا بچے نے کہا میرے والد کو مجھ سے ملا دیں، بچے کا یہ جملہ میرے لیے بہت پریشان کُن تھا، میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کروں گا، یقین دہانی کراتا ہوں لاپتہ افراد کو اہلخانہ سے ملاؤں گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا لاپتہ افراد کیس کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، میں عوام اور اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں، چار سال میں دو مرتبہ جیل گیا، میرے اہلخانہ نے بھی اذیت دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق بنائی کمیٹی 6 اجلاس کر چکی ہے، لاپتہ افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا، رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہو گی بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔
بعد ازاں عدالت نے وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے اقدامات کے لیے دو ماہ کی مہلت دینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے مدثر نارو سمیت دیگر لاپتا افراد کے کیسوں کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔

Exit mobile version