سائبان کے عنوان سے ادب اور جمالیات کا آئینہ اکیسویں صدی کے اداس پاکستانیوں کے سامنے پیش کرنے کا احسان حسین مجروح کے سوا اور کون کر سکتا ہے ۔وہ یہ کام از راہ محبت کرتے ہیں۔ سچ بتاوں اردو میں علم و ادب اور خیال و جمال کی چہرہ کشائی اس طرح کے مصفا آئینے ہی سے ممکن ہے ۔آج ؛ جب کہ کتاب پڑھنے کا چلن وہ نہیں رہا ،جو کبھی ہوا کرتا تھا، حرافہ ٹیکنالوجی نے اختصار پسندی کو مبالغے کی حد سے بھی سوا کر دیا ہے۔ایسے میں لکھنے سے گریز ، پڑھنے سے پرہیز اور سننے سے اکتاہٹ نے انسان کی تنہائی ، اداسی اور اسی کی پیدا کردہ بے بسی کو خوب فروغ دیا ہے۔حسین مجروح ادب نواز بھی ہیں ،تو ادب ساز بھی ،وہ اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ادب ، علم اور قاری کے باہم رشتے کو کس طرح سے مستحکم کرنا ہے۔ سائبان کے خاص شمارے کا اداریہ ہمیشہ دردمندی کی دکان ہوا کرتا ہے ۔کیا ادب غیر متعلق ہو جائے گا،ادب اور متعلقات ادب،جس میں صنف ، متن ، قاری اور تفہیم ادب کو ایک چوراہا بنا کر ٹریفک وارڈن کی ذمہ داری نبھانے والے نقاد وغیرہ اکیسویں صدی کے تیز رفتار رجحانات کا ساتھ دے پائیں گے یا نہیں؟ حسین مجروح اس بحث کا آغاز کرتے ہوئے دلچسپ سوال اٹھاتے ہیں.؛۔۔ ادب کے مستقبل کی بابت اندیشہ ہائے دور دراز تو عطار کے بدیسی لونڈوں اور ان کی دکانات شیشہ گری کی جانب سے بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ مصنوعیت کا یہ بگٹٹ گھوڑا، جسے نقاب پوش عالمی سرمایہ داری اور شاطرانہ نو استعماریت کی کھلی اشیر باد حاصل ہے، بالآخر کہاں رکے گا، اور نہیں رکے گا ، تو اپنے ہی سموں کے نیچے سارے انسانی اور اقداری ورثے کو کچل تو نہیں دے گا ۔یوں ہے تو ادب بالخصوص ادب عالیہ کو ۔۔۔ غیر متعلق ہونے سے کون بچا پائے گا !!!”۔لیکن اس سوال یا زیر بحث خدشے کا جواب بھی ؛خود سوال اور خدشے ہی کے اندر مستور ہے ،یعنی یہ کہ ادب اپنی افادیت، اہمیت اور عصری تقاضوں سے اپنی وابستگی کے ساتھ ساتھ قاری کیلئے اپنی معنویت کو ازخود منواتا رہتا ہے۔ متن اور معنی اپنا شکار خود تلاش کر لیتے ہیں۔اس شمارہ خاص میں چھ عدد سنجیدہ مضامین سجے نظر آرہے ہیں ۔سبھی مضامین عمدہ ہیں ،مگر ڈاکٹر روش ندیم کا مضمون ادب اور سماج اور ڈاکٹر طارق ہاشمی کا معاصر سرائیکی ناول: ثقافتی شناخت اور جنگ مخالف بیانئے متوجہ کرتے ہیں۔ گوشہ اسلم انصاری میں بلند پایہ دانشور، بے بدل شاعر، نامور ادیب ، زیرک محقق ، عمدہ نثر نگار اور اقبال شناس اسلم انصاری کے بارے میں پانچ وقیع مضامین میں ان کے کام اور نام کو عمدہ طریقے اور جدا سلیقے سے یاد کیا گیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے مضمون فرخ نامہ :ڈاکٹر اسلم انصاری کا وقیع کارنامہ میں ان کی مثنوی فرخ نامہ کا دلچسپ تعارف اور تفصیل پیش کی ہے ۔ایوب اولیا تو ڈاکٹر اسلم انصاری کے ہم مکتب (ہم کالج کہہ لیں) تھے ،انہوں نے اپنے نوجوانی کے دوست کو دلپزیر سلیقے سے یاد کیا ہے۔ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نجیب جمال اور اصغر ندیم سید تو اسلم انصاری کے ہم شہر اور ہم مجلس دوست اور مداح تھے ۔ان کی یاد نگاری دلچسپ ہے۔ باقی غزلیں ، نظمیں، افسانے، رپور تاژ اور دل کو چھو لینے والا پنجاب رنگ بھی اس شمارے کو خاص بنا رہا ہے۔اس پنجاب رنگ میں ایک مضمون ،دو نظمیں اور دو کہانیاں شامل ہیں ۔اس سب کے علاوہ بہت کچھ خاص الخاص بھی ہے ۔جب شمارہ ہاتھ میں ہو ، دل و دماغ حاضر و موجود اور آنکھیں شمارے کے صفحات پر مرکوز ہوں تو اصل محاسن طلوع ہوتے ہیں۔اور حسین مجروح کی اعلی ادارت کا ارفع معیار سامنے آتا ہے۔ اس شمارے میں شامل؛ میرے نزدیک سب سے موثر اور پر لطف اعلان وہ ہے کہ جس میں حضرت حسین مجروح نے اقلیم ادب میں رہنے بسنے اور بات بے بات ہنسنے والے نیز کم خرچ پر بالانشینی کی شہرت منوانے اور پھیلانے والے اصحاب کو مخاطب و متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انداز بیان شوخ ، معنی نہایت درجہ چنچل اور تاثیر دل سے نکلنے والی اس بات جیسی ،جو لازما اثر رکھتی ہے ۔میں اس اعلان کو مکرر پڑھنے کے بعد چاہتا ہوں کہ سبھی ادب دوست اور تخلیق کار اس عبارت کو پڑھیں، سمجھیں اور سمجھنے کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کریں۔چلئے سائبان تلے بیٹھ کر اس اعلان کو پڑھتے سنتے ہیں:” ہماری خو بو اور وضع کے متخالف ایک اور اعلان۔ یہ سائبان کا آٹھواں شمارہ ہے۔ اسے ہمارے ہاں کی مفت خوری کی عمومی علت پر محمول فرمائیں یا حرف مطبوعہ سے اغماض کا شاخسانہ کہ پچاسی فیصد سے زائد تعداد میں سائبان کا ہر پرچہ مفت بٹتا ہے۔ پرچہ نہ ہوا، کسی بزرگ کے عرس کا بھنڈارا ہو گیا۔ طرفہ تماشا کہ یہ مفت کے ان میخواروں کی اکثریت صاحب استطاعت ہے، اور ایک معقول تعداد تو خوش حال بھی۔ لیکن پرچہ مفت میں حاصل کرنے کی جھلک دیدنی ہے کہ ڈاک کے نظام پرچہ کی خرابی کے باعث پرچہ ملنے میں تاخیر ہو جائے، یا کبھی سرے سے نہ ملے تو شکایت کا حق محفوظ مقدم ۔ایک دو بار انتہائی ملائمت سے اس جانب توجہ دلائی تو اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ۔ غضب خدا کا ،کاغذ، چھپائی ،حرف کاری و حرف چینی، جلد بندی اور رجسٹری ڈاک سبھی کے اخراجات دگنے تگنے ہو گئے لیکن پرچہ تو ”ان محترمین کو بہر طور مفت ہی میں درکار ہے اور اس بابت ان کرم فرماں”کی سرے سے کوئی اخلاقی یا مالی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ یوں سائبان تحریک کا یہ نعرہ "کتاب پڑھیں ،خرید کر پڑھیں بھی بالعموم بہرے کے کان میں اذان دینے سے زیادہ کوئی نتیجہ بر آمد نہیں کر رہا” حسین مجروح کا یہ دردمندانہ اعلان پڑھ کر حضرت میر تقی میر کا ایک شعر دھیان میں آگیا؛
مجروح ہم ہوئے تو نمک پاشیاں رہیں
ایسی معاش ہووے جہاں کیا مزہ رہے
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتاب اور علمی و ادبی جرائد کو خرید کر پڑھنے کا رواج مدھم پڑتا جا رہا ہے۔ کتاب دوست اور رسائل شناس دیوانے ابھی باقی تو ہیں لیکن ان کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ میں اپنے دوستوں ، جاننے والوں اور طالب علموں کو جو اب بجائے خود بڑے استاد ہوچکے ہیں ،یہ صلاح دوں گا کہ پہلی فرصت میں سائبان کے سالانہ خریدار بن جائیں۔علمی و ادبی رسائل اپنے اطراف کی ذہنی فضا کو سمجھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ تخلیق ادب حسین مجروح کی خداداد صلاحیت اور ترویج ادب ان کا فراواں ذوق و شوق ہے۔میں جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ یہ دونوں کام بخوبی کرتے رہیں گے اور کوئی رکاوٹ ان کو روک نہ پائیگی ۔ دیکھیئے علامہ اقبال اس ضمن میں کیا رہنمائی فرماتے ہیں؛
پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں
یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
کالم
مجروح الفت، فکر درماں اور سائبان
- by web desk
- جون 5, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 69 Views
- 2 ہفتے ago