چولستان ہمارا خوبصورت صحرا ہے جہاں زمین کے نیچے والا کہیں سے پانی میٹھااور کہیں سے کھارا ہے مگر سابق حکمرانوں کی لاپرواہیوں کے سبب اسے آباد نہ کیا جاسکا پنجاب حکومت نے اس پر کیا اہم کام کیا وہ کالم کے آخر میں تحریر کرونگا پہلے مقبوضہ کشمیر کی بات کرلیتے ہیں جہاں بھارتی درندوں کی وحشیانہ کاروائیاں بڑھتی جارہی ہیں مقبوضہ کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مولاناعبدالرشید داو¿دی، مولانا مشتاق احمد ویری ، مولانا عبدالمجید مدنی ، مولانا معین الاسلام ندوی اور مولانا فہیم محمد رمضان کو گرفتار کرنا بھارت کا بدترین استعماری حملہ ہے ریاست جموں کشمیر کے عوام بھارتی حکمرانوں کی سازشوں سے اپنی ریاست ، شناخت و وحدت، دینی روایات، ثقافت و کلچر کو تباہ ہونے سے بچائیں اس وقت بھارتی غاصب حکومت ریاست میں آزادی، حق خودارادیت، حقوق اور انصاف کیلئے اٹھنے والی ہر آواز کو طاقت، وحشت اور دہشت گردی سے خاموش کرانے کیلئے تمام سامراجی ہتھکنڈے آزما رہی ہے گزشتہ پانچ برسوں میں آزادی پسند قیادت اور کارکنان، مختلف جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام، وکلاءاور تاجر راہنماو¿ں ، صحافیوں اور دانشوروں کو جعلی اور من گھڑت مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں قید کررکھا ہے تاکہ ریاست میں ہرعوامی مزاحمتی تحریک کو کچل دیا جائے بھارتی حکومت اپنی مزموم اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ناکامی کے بعد اب کشمیر میں منبر و محراب سے دین اسلام کی تبلیغ کرنے والے اہم علمائے کرام کو کالے قانون "پی ایس اے”کو لاگو کرکے انہیں گرفتار کرلیا ہے بھارت مسلم شناخت کو مٹانے کیلئے کشمیری علمائے کرام کو خاص ہدف بنا رہا ہے مقبوضہ ریاست میں بسنے والا ایک ایک شہری بھارت کے ظلم اور عتاب کا شکار ہے بھارت اپنی تمام تر سازشوں، استعماری حربوں اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اہل کشمیر سے انکا جذبہ آزادی کسی صورت نہیں چھین سکتااور نہ ہی کوئی کشمیر کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت کو چھیڑ سکتا ہے کشمیریوں نے ہندوستان کے فوجی قبضے کو قبول کیا ہے نہ کریں گے کشمیر سے تعلق رکھنے والی اہم سیاسی شخصیات فاروق آزاد ،آفتاب نازکی،انعام کشمیری ،سردار انور خان ،شہزاد نازکی اور کاشف کشمیری نے نریندرمودی کو مستند عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری اور پاکستان لاز م وملزوم ہیں مضبوط و مستحکم پاکستان کشمیریوں کی ہندوستان سے آزادی کا ضامن ہے جبکہمسئلہ کشمےر کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی تسلےم شُدہ قراردادوں پر عملدرآمد کروانے کے لیے عالمی بے حسی، غےر سنجےدگی اور لا تعلقی بھارت کو مظالم کا سلسلہ جاری رکھنے کی شہ دےنے کے مترادف ہے اس و قت مقبوضہ کشمےر مےں انسانی حقوق کی سنگےن خلاف ورزےاں عروج پر ہےں وہاں جان و مال ، عزت و آبرو ہر طرح سے غےر محفوظ ہےں ادارہ اقوام متحدہ کا ےہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی قراردادوں پر من و عن عملدرآمد کو ےقےنی بنانے کے لیے بھارت کو مجبور کرے نہ کہ مزےد خاموشی اختےار کرے جسکے باعث مکار بھارت کو کشمےریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھنے مےں مزےد وقت ملے جب تک مسئلہ کشمےر کشمےرےوں کی خواہشات و تسلےم شدہ قراردادوں کے مطابق حل نہےں ہو جاتا اُس وقت تک جنوبی اےشےا مےں امن کی ضمانت ممکن نہےں کشمیری گزشتہ تین سال سے یرغمال ہیں عالمی برادری اس کا نوٹس لے یہ تو تھی مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اب پنجاب حکومت کے اس بڑے کارنامے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے باعث پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں بھی خوشحالی کا سورج طلوع ہوگا وزیراعلی چوہدری پرویز الہی نے چولستان میں 20ہزار مقامی کاشتکاروں کو سرکاری اراضی دینے کا اعلان کیا ہے اس بے آباد اور بنجر زمین کو تھوڑی سے محنت کے بعد کابل کاشت بناکر چولستان میں بھی سبزہ نظر آنا شروع ہوجائیگا یہ کام آج سے بہت عرصہ پہلے ہی کردینا چاہیے تھا مگر سابق حکمرانوں نے اس طرف توجہ نہیں دی حکومت وہاں کے مقامی بے زمین کاشت کاروں کو 5سالہ عارضی کاشت کیلئے شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے اراضی الاٹ کریگی پہلے فیز کی الاٹمنٹ کے لئے قرعہ اندازی پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ذریعے ہوگی جسکے بعدمزید 5ہزار کاشتکاروں کو دوسرے فیز میں چولستان میں عارضی کاشت کے لئے اراضی دی جائے گی عارضی کاشت کیلئے اراضی دینے سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی اور اسکے ساتھ ساتھ چولستان کے بے زمین کسانوں کو اراضی دینے سے ان کی قسمت بھی بدل جائے گی صحرائے چولستان جو مقامی طور پر روہی کے نام سے بھی مشہور ہے بہاولپور سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ جنوب مشرق میں راجستھان اور صوبہ سندھ سے جاملتا ہے یہاں کے مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائے چولستان کے ٹوبھوں کے گرد اپنا مسکن بناتے ہیں ٹوبھا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہتے ہیں برسات کے دنوں میں یہ ٹوبھے پانی سے بھر جاتے ہیں صحرائے چولستان کے باسی چولستانی لہجے کی سرائیکی بولتے ہیں جو راجستھانی بولیوں سے بھی ملتی جلتی ہے یہ پنجاب کے دو بڑے صحرا¶ں میں سے ایک ہے دوسرا صحرائے تھل یہ نام ترکی کے لفظ چول سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ”ریت ” اور استن فارسی لاحقہ ہے جس کا مطلب ہے ”زمین” جو جنوبی پنجاب میں بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان اضلاع میں 25,800 کلومیٹر (10,000 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے اس صحرا کی لمبائی تقریباً 480 کلومیٹر ہے جس کی چوڑائی 32 اور 192 کلومیٹر کے درمیان ہے چولستان پلائسٹوسن دور میں قائم ہوا تھا ارضیاتی طور پر چولستان کو گریٹر چولستان اور چھوٹے چولستان میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں قدیم دریائے ہاکرہ بڑے زور شور سے بہا کرتا تھا گریٹر چولستان صحرا جنوب اور مغربی حصے میں ہندوستان کی سرحد تک زیادہ تر ریتیلا علاقہ ہے اور یہ 13,600 کلومیٹر (5,300 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے اس علاقے میں ریت کے ٹیلوں کی اونچائی 100 میٹر سے زیادہ ہے چھوٹا چولستان ایک بنجر اور قدرے کم ریتیلا خطہ ہے جس کا رقبہ تقریباً 12,370 کلومیٹر (4,780 مربع میل) ہے جو پرانے دریائے ہاکرہ کے شمال اور مشرق میں تاریخی طور پر دریائے ستلج کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے یہ علاقہ اگرچہ اب ایک بنجر خطہ ہے چولستان میں کسی زمانے میں ایک بڑا دریا بہتا تھا جو دریائے ستلج اور یمنا کے پانی سے بنتا تھا جس کے ساتھ وادی سندھ کی تہذیب/ہڑپہ ثقافت کی بہت سی بستیاں دریافت ہوئی ہیں جن میں گنویریوال کا بڑا شہری مقام بھی شامل ہے اس علاقے کی ایک بڑی تعلیمی درسگاہ اسلامیہ یونیورسٹی بھی ہے جسکے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر مبارک ہیں جنہوں نے چولستان کے حوالہ سے ایک تاریخی کام کیا ہے ایسے لوگ صدیوں میں آتے ہیں اور صدیوں کاکام چند سالوں میں نمٹا کر علاقہ کے لوگوں کےلئے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ جاتے ہیں ان کے دور میں یونیورسٹی نے جو ترقی کی وہ ایک مثالی ہے مگر اب انہوں نے گذشتہ روز یونیورسٹی میں آرکیالوجی کا شعبہ بھی قائم کردیاجس سے چولستان اور چولستانیوں کی قسمت بھی بدل جائیگی انکے تعلیمی میدان میں اتنے کارنامے ہیں کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میںایک دن انکا نام شامل ہو جائیگا۔