مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں کی تنظیم ’ڈاکٹرز ایسوسی ایشن آف کشمیر‘نے مقبوضہ علاقے کو جعلی ادویات کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف میڈیکل سٹورز بلکہ ہسپتالوں میں بھی نقلی ادیوات کی بھرمار ہے۔ نقلی ادویات کے کاروبار کا علم بھارتی حکومت، کٹھ پتلی انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیوں کو بھی ہے جبکہ نقلی ادویات مافیا کی ڈوریں ادویہ ساز کمپنیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جو خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کےلئے ادویات تیار کرتی ہیں۔بھارت کی 40 فیصد کمپنیاں نقلی ادویات تیار کرتی ہیں۔ چند برس قبل مقبوضہ وادی میں بدنام زمانہ جعلی ادویات کا سکینڈل سامنے آیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس وبا کو روکنے کےلئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دستاویزی ثبوت ہونےکے باوجود با اثر افراد بچا لئے گئے۔ وادی میں استعمال کی جانے والی ادویات میں سے پچاس فیصد جعلی ہوتی ہیں اور لوگوں کی زندگی داو¿ پر لگ جاتی ہے۔ 2012 میں بچوں کے ہسپتال جی پی پنت میں 500 بچے موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ ڈاکٹروں پر غفلت شعاری کا الزام لگایا گیا جبکہ اصل میں بچوں کی اموات نقلی ادویات کی وجہ سے ہوئی تھی۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر صحت شام لعل شرما کے دور میں محکمہ صحت کی پرچیز کمیٹی کی جانب سے ضد انفیکشن ٹکیاں سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی جموں کی ایک ادویہ کمپنی نے جو ٹکیاں سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی کیں ان میں مطلوبہ دوائی کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا بلکہ ٹکیوں میں صرف آٹا بھرا ہوا تھا۔گویا مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دوائی کے نام پر زہر دیا جارہا ہے۔حکومت نے صرف یہ کام کیا کہ حکومت جموں کی نجی کمپنی میسرز لائف لائن فارما کو سرجیکل لمیٹیڈ کی جانب سے جعلی اور غیر معیاری ضد انفیکشن دوائی سپلائی کئے جانے کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی اور کنٹرولر ڈرگ سٹورز کشمیر کو معطل کرکے انکوائری مکمل ہونے تک نظامت صحت جموں کے ساتھ منسلک کردیا۔ سنٹرل پرچیز کمیٹی بھی جموں میں ہی قائم ہے اور کمیٹی کی ناک کے نیچے جعلی اور غیر معیاری دوائی مقبوضہ کشمیر کے ہسپتالوں کو سپلائی ہوئی ہے تاہم حکام کو یا تو خبر نہ ہوئی یا جان بوجھ کر خاموش رہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو عوام کی صحت کا کوئی خیال نہیں ہے اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ گزشتہ برس سے تقریباً سات سو افراد نقلی ادویات کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے اور سرینگر کے بچوں کے ہسپتال میںد رجنوں معصوم بچوں کی موت بھی جعلی ادویات کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین نے مقبوضہ کشمیر میں بجلی کے بحران پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ علاقے کے قدرتی وسائل کو بے دریغ لوٹ رہا ہے جبکہ یہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات کیلئے ترسایا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 1700 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جس میں سے صرف170 میگاواٹ کشمیریوں کی دی جارہی ہے جبکہ باقی کی ترسیل بھارتی ریاستوں کو کی جاتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف روزانہ ہڑتال ہوتی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام 75 سال سے اپنے حقوق و آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن عیار اور مکار ہندو اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے آج تک اس آزادی کی تحریک کو کچل نہیں سکا۔ لیکن اپنی سفاکی اور بربریت کے ذریعے لوگوں کو شہید کرکے تحریک آزادی کو تقویت بخش رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک اب نئی نسل میں منتقل ہو چکی ہے۔
بھارت کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے اپنی آٹھ لاکھ غاصب فوج کو واپس بلا لے اور ظلم و جبر کے گرم کئے ہوئے بازار کو بند کرے اور اگر بھارت سمجھے کہ وادی میں کرفیو نافذ کرنا، سید علی گیلانی کو گرفتار کرنا یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جس تحریک میں شہدا کا خون شامل ہو جائے وہ مقاصد کے حصول سے پہلے کبھی ختم نہیں ہوتی اس لئے مزید فوجیوں کو جہنم واصل کروانے سے بہتر یہی ہے کہ ان کو واپس بلا لیں اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے دیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں قانون نافذ کرنے کی آڑ میں لاقانونیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ بربریت اور سفاکیت کی تمام حدوں کو پار کرنے والی کٹھ پتلی سرکار نے انسانیت کے تمام مسلمہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے مستقبل کے مورخ کو لکھنے پر مجبور کر دیا کہ دنیا کی سب سے مظلوم ترین قوم کا تعلق جموں و کشمیر کے خطے سے تھا۔ بھارتی حکومت کشمیری عوام کی پرامن تحریک سے اتنا بوکھلا گئی ہے کہ وہ اب کالے قوانین کے ذریعے نام نہاد عدالتوں کا سہارا لیکرتحریک سے وابستہ قیدیوں کو تا دم مرگ عمر قید اور موت کی سزائیں سنانا شروع ہوگئی ہے۔فرضی جھڑپوں اور حراستی ہلاکتوں کے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد کشمیری عوام میں عام تاثر یہی ہے کہ ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔فرضی جھڑپیں، حراستی گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں گذشتہ بائیس برسوں سے کشمیر میں روز مرہ کا مشاہدہ گھر گھر کی کہانی اور گلی گلی کی داستان ہیں۔
٭٭