کالم

مقبوضہ کشمیر میں شدید اقتصادی بحران

مقبوضہ کشمیر میں اقتصادی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کی بڑی وجہ بھارتی حکومت کی متنازع و ناکام پالیسیاں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی ہے۔بے جا پابندیوں سے اربوں کا نقصان، تعلیم اور روزگار تباہ ہوگیا، بھارتی فوج کی موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی کی معیشت شدید زوال کا شکار ہوئی ہے، جس سے کشمیری عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ 2019 ء میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد سے مواصلاتی بلیک آو¿ٹ مسلط کیا گیا، جس نے لاکھوں افراد کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق زرعی مصنوعات کی ترسیل پر عائد پابندیوں سے معیشت کو 400 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بھارتی پالیسیوں نے سیاحت کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا، جس سے 100 کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں تجارتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے باعث کشمیری تاجروں کی آمدنی میں 60 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ زرعی مصنوعات پر پابندیاں کسانوں کے لیے معاشی بربادی کا باعث بن گئی ہیں اور وہ شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔تعلیمی اداروں کی بندش نے بھی لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 2019 کے بعد بے روزگاری کی شرح میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا، جو خطے میں بڑھتی ہوئی محرومی کی نشاندہی کرتا ہے۔بھارتی فوج کی مسلسل موجودگی اور نگرانی مقبوضہ وادی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔بھارت کی جانب سے مقامی وسائل پر قبضہ اور معیشت پر سخت نگرانی نے وادی کو بدترین اقتصادی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدوجہد آزادی سے پیچھے نہیں ہٹے اور ان کا حوصلہ ناقابل تسخیر ہے۔کشمیری کئی سال سے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہندوو¿ں کی اجارہ داری پر یقین رکھتے ہیں اور انتہا پسند افراد بھارت کو یرغمال بنا کر وہاں حکومت کر رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں نولاکھ فوج کی موجودگی سے صورتحال کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔بھارت کایہ بیانیہ قطعی غلط اورمضحکہ خیز ہے کہ اس نے کشمیریوں کی خوشحالی کے لئے مقبوضہ وادی میں فوج تعینات کررکھی ہے۔ اقوام متحدہ پاکستان بھارت مذاکرات یقینی بناسکتا ہے۔ تنازع کا کوئی بھی سیاسی حل کشمیریوں کے انسانی حقوق کا ضامن ہونا چاہیے۔بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اگر اس نے کشمیریوں کے حق میں دنیا کی آوازپر کان نہ دھرے تو کشمیر سمیت خطے کے حالات مزید بگڑ جائیں گے اور پھر یہ نہ تو مودی اور نہ ہی ہمارے قابو میں رہیں گے اور ایک جوہری جنگ کا خدشہ بڑھتا جائےگا۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ بد سے بدتر ہوتا جائیگا جوکہ یہ انتہائی خطرناک ہے۔مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر مسلسل بدامنی، احتجاج، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہے۔ بھارتی حکومت کی یکطرفہ پالیسیوں نے نہ صرف کشمیری عوام کو مشتعل کیا بلکہ خطے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔امت شاہ نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے دہشت گردی ختم ہوگی اور امن قائم ہوگا، لیکن ان کے یہ دعوے عملی طور پر بے بنیاد ثابت ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بدامنی بڑھ گئی، عوامی غصہ بغاوت میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ سمیت کئی رہنماو¿ں کو نظر بند کر دیا گیا، سیاسی سرگرمیاں محدود ہو گئیں، اور مزاحمتی تحریکوں میں تیزی آئی۔ مودی کی پالیسیوں کے خلاف ‘جموں و کشمیر اپنی پارٹی’ جیسے نئے سیاسی پلیٹ فارمز سامنے آئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام حکومتی جبر کو مسترد کر چکے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ اور دیگر اداروں نے 2019 کے بعد سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹس جاری کیں۔ فیک انکاو¿نٹرز میں 200 سے زائد شہری مارے گئے، ہزاروں افراد کو بغیر مقدمے کے قید کیا گیا اور طویل انٹرنیٹ بندش نے عام زندگی مفلوج کر دی۔آج مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں اور کشمیری عوام آزادی کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ پ±رعزم نظر آتے ہیں۔ مزاحمت کی یہ لہر اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کو بندوق کے زور پر دبایا نہیں جا سکتا۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں۔مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے