کالم

مودی حکومت کسانوں کا احتجاج روکنے کےلئے سرگرم

کسانوں کے مسلسل احتجاجی مظاہروں سے پریشان بھارتی حکام نے پنجاب کی سرحد کو تاتیانا اور سنگت پورہ کے مقام پر سیل کر دیاہے تاکہ کسانوں کو اوچنا، جنڈ میں مہاپنچایت میں شرکت سے روکا جا سکے۔ سرحد کی بندش سے ٹریفک کی آمدورفت معطل رہی جس سے مقامی لوگوں اور مسافروں کو شدیدپریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسافر متبادل راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ پولیس سمیت بھارتی فورسز کی بھاری تعداد میں تعیناتی سے مقامی لوگوں، مسافروں اور کسانوں میں شدید غم وغصہ پایاجاتاہے۔ کسان رہنما جرنیل سنگھ نے ناکہ بندی کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے ایک پرامن مہاپنچایت کا منصوبہ بنایا تھا لیکن بی جے پی حکومت نے کسانوں کے اجتماع سے خوفزدہ ہو کرپنجاب کو ہریانہ سے ملانے والے تمام بڑے راستوں کو بند کر دیا ہے۔ ناکہ بندی سے علاقے میں ٹریفک کی روانی اور روزمرہ کی زندگی نمایاں طور پر متاثرہوئی ہے۔ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ’ہمارے مفاد میں نہیں۔‘کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت خریدنے کی ’قانونی گارنٹی‘ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔بھارت میں فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت کیلئے احتجاج کرنے والے کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں یوم سیاہ منایا اور وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر وزرا کے پتلے جلائے۔ ہزاروں کسانوں نے دلی چلو مارچ شروع کیا تھا لیکن بھارتی فورسز نے دارالحکومت سے شمال میں تقریبا 200 کلومیٹر دورمظاہرین کو روک دیا اور انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔کسان لیڈروں کی اپیل پر یوم سیاہ منایاگیا۔ کسانوں نے قطار میں کھڑے ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے۔ مظاہرین،سے اظہار یکجہتی کے لیے دیگر کسانوں نے بھی اپنی پگڑیوں پر سیاہ کپڑا باندھا۔کسانوں نے احتجاج کے دوران ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا پتلا بھی جلایااورمودی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ بھارت میں کسانوں کے جاری احتجاج کے دوران 100 سے زائد مظاہرین پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران شدید زخمی ہوگئے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ احتجاج کے دوران چھروں سے مارے گئے تین کسان مبینہ طور پر زخمی ہونے کی وجہ سے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں کیونکہ ہریانہ پولیس نے کسانوں کو دہلی کی جانب مارچ کو روکنے کےلئے پنجاب ہریانہ سرحد پر آنسو گیس کے گولے داغے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔کسان تمام فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت ، اپنے قرضوں کی معافی اور 2021کے احتجاج کے دوران ان پر قائم کئے گئے مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ہندوستانی کسانوں کی تحریک 2020ءمیں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ تین زرعی بلوں کے خلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج ہے، جسے مختلف کسانوں کے گروہوں نے کسان مخالف قوانین کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ملک بھر میں 500 سے زیادہ کسان تنظیم احتجاج کر رہی ہیں۔جون 2020 کے وسط میں، حکومت ہند نے زرعی مصنوعات، ان کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، زرعی مارکیٹنگ اور زرعی اصلاحات سے متعلق معاہدے سے متعلق تین فارم آرڈیننس نافذ کیے۔ ایک بل 15 ستمبر 2020 کو لوک سبھا اور دو دوسرے نے 18 ستمبر 2020 کو منظور کیا تھا۔ بعد ازاں، 20 ستمبر 2020 کو، راجیہ سبھا نے دو بل اور تیسرا 22 ستمبر کو بھی منظور کر لیا۔ ہندوستان کے صدر نے بھی 28 ستمبر 2020 کو ان بلوں پر دستخط کیے اور اپنی منظوری دی، اس طرح انھیں قانون میں تبدیل کر دیا گیا۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تین نئے زرعی قوانین منسوخ کریں۔فارم قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے۔کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) بنائیں اور فصلوں کی ریاستی خریداری کو قانونی حق بنائیں۔ یقین دہانی کرو کہ روایتی خریداری کا نظام جاری رہے گا۔سوامیاتھن کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد کرو۔ زرعی استعمال کے لیے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کریں۔ تنکے جلانے پر جرمانے اور جرمانے کا خاتمہ ۔ پنجاب میں چاول کے بھس جلانے کے الزام میں گرفتار کسانوں کی رہائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے