ملک میں 27ترمیم کے بعد نیا آئین اور عدالتی مکمل طور رائج ہو چکا ہے۔اس ضمن میں سینیٹ نے قومی اسمبلی سے ترمیم شدہ 27ویں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا،بل کی منظوری کے موقع پر پی ٹی آئی اور جے یوآئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج اور نعرے بازی کی۔ادھرصدر مملکت آصف علی زرداری دونوں ایوانوں سے منظور ہو کرآنے والے27 ویں آئینی ترمیم بل پر دستخط کر دئیے ہیں ۔ جمعرات کوجاری بیان کے مطابق اس ترمیم کے بعد بل اب آئین کا حصہ بن گیا ہے۔دوسری طرف وفاقی کابینہ نے فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ (پروسیجر اینڈ پریکٹس)ایکٹ 2025کے مسودے اور پاکستان آرمی ایکٹ پاکستان ایئر فورس ایکٹ اور پاکستان نیوی ایکٹ میں ترامیم کی بھی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں متعلقہ قوانین کو ستائیسویں آئینی ترمیم سے ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ۔اسی طرح قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ترمیمی بل2025، پاکستان ائیرفورس ترمیمی بل 2025،پاکستان نیوی ترمیمی بل 2025کی منظوری بھی دے دی ہے۔مجوزہ آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف کا بطور چیف آف ڈیفنس فورسز نیا نوٹی فکیشن جاری ہو گاجسکے بعد آرمی چیف کی مدت بطور چیف آف ڈیفنس فورسز دوبارہ سے شروع ہوگی ،وزیراعظم آرمی چیف چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ تعینات کریں گے کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈرکی مدت ملازمت 3سال ہوگی۔ قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعدآرمی چیف کا عہدہ اب چیف آف ڈیفنس فورسز سے تبدیل ہوا ہے۔ عہدے کی مدت 5سال ہوگی،اورتعیناتی کی تاریخ سے مدت شمار ہوگی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف
اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے اور موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ آرمی چیف چیف آف ڈیفنس فورسز پاک فوج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ اور انضمام کریں گے کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کو 3 سال کے لیے دوبارہ تعینات کیا جا سکے گا۔مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ 27نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔عدالتی سائیڈ پر بھی کی جانی والی تبدیلی کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر جسٹس امین الدین خان کی بطور چیف جسٹس آئینی عدالت تقرری کی منظوری دے دی ہے ۔ وزارت قانون و انصاف نے جسٹس امین الدین خان کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ اس سے قبل جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ تھے، وہ اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو رہے تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے 30 نومبر کو عہدہ سے ریٹائر ہونا تھا۔تاہم اس کے ساتھ ہی نیا اعدالتی بحران بھی سر اٹھانے کا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے کیوں کہ ادھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ 27ویں آئینی ترمیم پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں ، جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر ایک سنگین حملہ کے مترادف ہے، جس نے سپریم کورٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے موقف اختیار کیا کہ میں نے جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا،اس ترمیم کے بعد وہی باقی نہیں رہا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے، جس میںموقف اختیار کیا گیا ہے کہ میں نے اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان،جسٹس یحی آفریدی کو 2 خطوط بھی لکھے تھے، انہوںنے موقف اختیار کیا ہے کہ،اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بناکرہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی گئی ہے،جسکے نتیجہ میں انصاف عام آدمی سے دور اور کمزور ہوگیا ہے جبکہ طاقتوروں کے سامنے بے بس ہو گیا ہے،فاضل جج نے قلمبند کیا ہے کہ ملک کی واحد اعلی ترین عدالت کو منقسم کر کے اور عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے سے ملک کو دھائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ آئینی نظم و نسق کی ہیت میں اس طرح کی تبدیلیاں زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوتیں اور اصلاح ایک یقینی امر ہے مگر اس کے چھوڑے ہوئے زخم کے نشانات مندمل نہیں ہو سکتے،انہوںنے مزید لکھا ہے کہ اس نازک موڑ پر میرے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو میں ایک ایسے انتظام کا حصہ بن کر رہوں جو اس ادارے کی ہی بیخ کنی کرتا ہے۔نئے آئینی اور عدالتی انتظام کے بعد امید کی جانی چاہیئے کہ اب ملک عوامی امنگوں کے مطابق تیزی سے آگے بڑھے گا،اور نہ اب وفاقی حکومت کے پاس کوئی جواز باقی رہ گیا ہے کہ وہ کہہ سکے اسے چلنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ملک کا تمام نظم نسق جس طرح حکومت کو ترتیب دے کر دے دیا گیا ہے اس سے قبل کسی حکومت کے نصیب میں نہیں رہا۔
اسلام آباد کچہری حملے کا نیٹ ورک گرفت میں
وفاقی حکومت کے حساس ادارے انٹیلی جنس بیورو،اورسی ٹی ڈی نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پر حملے میں ملوث فتن الخوارج کے دہشت گرد سیل کے 4 اہم ارکان گرفتار کو گرفتار کرلیا ہے۔یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ ذرائع کے مطابق خودکش حملہ آور کے گرفتار ہینڈلر ساجد اللہ عرف شینا نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ فتنہ الخوارج کے کمانڈر سعید الرحمن عرف داد اللہ نے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے رابطہ کر کے اسلام آباد میں خودکش حملہ کرنے کی ہدایت کی۔ملزم نے بتایا کہ سعید الرحمن کا تعلق باجوڑ کے علاقے چرمکنگ سے ہے اور وہ اس وقت افغانستان میں مقیم اور ٹی ٹی پی نواگئی، باجوڑ کا انٹیلی جنس چیف ہے۔ ملزم نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کیلئے خودکش حملہ کیا گیا۔ خودکش بمبار عثمان عرف قاری کا تعلق شینواری قبیلے سے تھا اور وہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے علاقے اچین کا رہائشی تھا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق خودکش بمبار افغانستان سے پاکستان پہنچا تو ساجد اللہ عرف شینا نے اسے اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ٹھہرایا۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں موجود فتن الخوارج کے کمانڈر کی ہدایت پر ساجد اللہ نے اکھن بابا قبرستان پشاور سے خودکش جیکٹ حاصل کی اور اسے اسلام آباد پہنچایا، دھماکے کے روز ساجد اللہ نے خودکش بمبار عثمان عرف قاری کو خودکش جیکٹ پہنائی۔ فتن الخوارج کی افغانستان میں موجود اعلی قیادت ہر قدم پر اس نیٹ ورک کی رہنمائی کر رہی تھی، اس واقعے میں ملوث پورا سیل پکڑا جا چکا ہے، آپریشنل کمانڈر اپنے 3 دہشت گرد ساتھیوں سمیت گرفتار ہو چکا ہے جبکہ تحقیقات جاری ہیں اور مزید انکشافات اور گرفتاریاں متوقع ہیں۔و فاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ افغانستان کے اندر کارروائی سے متعلق حکومتی سطح پر فیصلہ کریں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ افغانستان سے حملے ہوں اور ہم چپ بیٹھ جائیں، دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھ سکتے، وانا کیڈٹ کالج اور اسلام آباد دھماکے حملہ آور افغان شہری تھے ۔
صوبہ سندھ میں ڈینگی کا راج،تشویشناک امر
سندھ میں ڈینگی سے اموات میں اضافہ تشویش ناک ہے،اب تک 829کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ کیسز میں کراچی کے419جبکہ حیدرآباد ڈویژن کے 410کیسز شامل ہیں۔ سیکریٹری محکمہ صحت مطابق گزشتہ24گھنٹوں کے دوران صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں101نئے کیسز داخل ہوئے جبکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں 82نئے مریض داخل ہوئے۔ صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں سے 123 مریض جبکہ پرائیویٹ اسپتالوں سے93مریض صحت یاب ہوکر گھر گئے۔ رواں ماہ ڈینگی سے صوبے بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 8ہزار 891ریکارڈ ہوئی ہے جبکہ رواں سال صوبے بھر میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 14ہزار 468 رہ ہے۔یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے،جس پر حکومت سندھ کو ہنگامی بنیادی پر حفاظتی تدابیر کو مزید موثر بنانا چاہیے تاکہ اس مرض پر قابو پایا جا سکے۔
نئی شروعات

