Site icon Daily Pakistan

نئے صوبے: انتظامی ، ثقافتی اور قانونی ضرورت !

حلقہ احباب

نئے صوبوں کی بات اس وقت زیر بحث ہے اور اس میں خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کی سکیم ایسی ہے کہ اس سلسلے میں جو بھی ہو گا سب کی مشاورت اور وسیع تر اتفاق رائے سے ہو گا۔ اگر وسیع تر اتفاق رائے سے نئے صوبے بنتے ہیں تو یہ ملک کی انتظامی ہی نہیں ، سماجی ، ثقافتی اور قانونی ضرورت بھی ہیں۔

آئین پاکستان نے اس معاملے پر ایک بالکل واضح طریقہ کار فراہم کیا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ اگر کسی آئینی ترمیم کے نتیجے میں کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی ہو یا نیا صوبہ بنایا جائے تو ایسا بل اس وقت تک صدرِ مملکت کو منظوری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا جب تک کہ وہ متعلقہ صوبائی اسمبلی سے اس کے کل ارکان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں محض سادہ اکثریت کافی نہیں بلکہ دو تہائی ارکان کی حمایت لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں بھی ایسے بل کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ یوں ایک نیا صوبہ بنانے یا موجودہ صوبے کی حدود بدلنے کا فیصلہ صرف وسیع تر مشاورت اور بھاری اکثریت کی حمایت سے ہی ممکن ہے۔

یہ آئینی تقاضا اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ صوبوں کی حیثیت یا حدود میں تبدیلی محض انتظامی حکم نہیں بلکہ ایک بڑا قومی اور سیاسی فیصلہ ہے جو براہِ راست عوامی نمائندگی، مقامی شناخت اور وفاقی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے آئین نے یہ معاملہ انتہائی سخت شرائط کے ساتھ باندھ رکھا ہے تاکہ کوئی بھی حکومت محض وقتی سیاسی فائدے کے لیے صوبوں کے ڈھانچے سے کھیل نہ سکے۔ جب سب مل کر فیصلہ کریںگے تو انشاء اللہ یہ ملک و قوم کے لیے باعث خیر ہو گا۔پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام پر بحث محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے اثرات براہِ راست ریاستی ڈھانچے، وفاقی اکائیوں کے تعلقات اور عام شہریوں کی روزمرہ زندگی پر پڑتے ہیں۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے وسائل کے تقاضے اور بڑھتی ہوئی عوامی مشکلات یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ کیا موجودہ صوبائی ڈھانچہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقتا فوقتا نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ سامنے آتا ہے ۔

نئے صوبوں کی ضرورت محض انتظامی سہولت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی تقاضے بھی جڑے ہیں۔ پاکستان مختلف لسانی اور ثقافتی اکائیوں پر مشتمل ملک ہے۔ جب ان خطوں کو ریاستی سطح پر نمائندگی دی جاتی ہے تو اس سے قومی یکجہتی مضبوط ہوتی ہے اور محرومیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب، ہزارہ، یا سندھ کے بعض اضلاع کے عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زبان اور ثقافت کو مناسب نمائندگی نہیں مل رہی۔ اگر ان خطوں کو صوبائی سطح پر نمائندگی دی جائے تو ان کے احساسِ محرومی میں کمی آ سکتی ہے اور وفاق مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔انتظامی اعتبار سے بھی نئے صوبے ایک فوری ضرورت بن چکے ہیں۔ موجودہ صوبے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اتنے بڑے ہیں کہ ایک عام شہری کے لیے ریاستی اداروں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ میانوالی جیسے شہروں کے لوگ اگر کسی مقدمے کے سلسلے میں ہائی کورٹ جانا چاہیں تو انہیں لاہور جانا پڑتا ہے۔ سینکڑوں کلومیٹر کا یہ سفر وقت اور وسائل کے اعتبار سے ان کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے۔ اگر مزید صوبے قائم کیے جائیں اور ان کے ساتھ نئی عدالتیں اور ادارے بنائے جائیں تو عوام کو انصاف اور سہولت ان کی دہلیز پر فراہم کی جا سکتی ہے۔

مزید صوبے بنانے سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے عوامی ضروریات کے مطابق بن سکیں گے اور مرکزیت یا بیوروکریسی کی گرفت کمزور ہوگی۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہی راستہ اختیار کیا گیا ہے اور عوامی سہولت کو یقینی بنانے کے لیے صوبوں یا ریاستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ نئے صوبوں کا قیام پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور ایک امتحان بھی۔

موقع اس لیے کہ اس سے وفاق مضبوط ہو سکتا ہے اور عوامی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ امتحان اس لیے کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں فیصلہ کر پاتی ہیں یا نہیں۔ اگر یہ فیصلہ آئین کے طے شدہ طریقہ کار یعنی آرٹیکل 239کی دو تہائی اکثریت کے تقاضے کے ساتھ وسیع تر مشاورت اور دانشمندی سے کیا گیا تو یہ ملک کے لیے تاریخی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے عجلت یا وقتی سیاست کی نذر کیا گیا تو یہ اختلافات اور تقسیم کو بڑھا سکتا ہے اور کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ ہو سکتا ہے۔

اصل ذمہ داری قیادت پر ہے کہ وہ تاریخ کے اس موڑ پر دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرے۔ برادر مکرم میاں عامر محمود ، برادرم ایس ایم تنویر اور دیگر اہل علم یقینا مثبت تجاویز کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور یقینا اہل سیاست ، پارلیمان اور فیصلہ ساز انشا اللہ کسی اچھے فیصلے پر پہنچیں گے۔

Exit mobile version