Site icon Daily Pakistan

نانی کمیٹیاں والی

میں ایسے شرپسند لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنا چاہتا ہوں ،جو دوسروں کو ہر لحظہ ان کی عمر کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔شرلی بے بنیاد بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہے ۔ہزار بار سمجھا چکا ہوں ،تربیت کرنے کی کوشش کر چکا ہوں ، دم بھی کروا کر دیکھ لیا ہے ،لیکن اس کے نظام غور و فکراور طرز گفتار میں دوسروں کی بڑھتی عمر کا شمار اور برملا اظہار شامل رہتا ہے۔وہ بظاہر اپنائیت سے ،مگر درحقیقت شرپسندی سے لوگوں کے نام رکھتا ہے ، چاچو، ماموں، تایا، کھالہ(خالہ کو کہتا ہے)پھپھو یا پھپھی، اور نانی وغیرہ ۔اسے لاکھ بار سمجھایا ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال و کردار اور ان کی گفتار سے جانچا کرو ۔کسی کو ماما یا نانی کہہ دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔اس کا موقف بڑا عجیب و غریب سا ہے۔کہتا ہے کچھ غلطیاں انسان کم علمی ، نادانی اور انجانے میں کر گزرتا ہے۔وہ درگزر کے قابل ہوتی ہیں ۔لیکن غلطیوں اور مکاریوں کی بعض قسموں کا تعلق خالصتا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ہوتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ نانی کتنا محترم اور پیار بھرا رشتہ ہے لیکن جن بزرگ مسمات میں نہ شفقت اور پیار ہو ،نہ دوسروں کا احساس ،لیکن بظاہر وہ ایسے ڈرامے کرتی پھریں جیسے وہ تو بہت ہی ہمدرد ،غم خوار دوسروں سے محبت اور شفقت کرنے والی ہستی ہیں۔ ایسیوں کو وہ شیطان کی نانی قرار دیتا ہے۔خیر میں اس سے کیا بحث کروں ۔اس کا ایک ذاتی دکھ بھی سمجھتا ہوں ۔اس نے موٹر سائیکل خریدنے کے لیے محلے کی ایک عمر رسیدہ مگر ماہر امور کمیٹی خاتون کے ساتھ ایک کمیٹی میں شرکت کی تھی۔ یہ کمیٹیوں والی خاتون پیشے کے اعتبار سے دایہ تھی ۔اس پیشے اور مہارت کی وجہ سے وہ محلے کی تمام عورتوں کی رازدار ، خدمت گزار اور واقف حال تھی ۔شرلی باقاعدگی سے اپنے حصے کی کمیٹی اسے ادا کرتا تھا ۔ اس نے اپنے اخراجات بہت ہی محدود کر دیئے تھے۔اس نے پلے سے چائے پینی چھوڑ دی تھی ،گھر میں ہوتا تو کھانا نہیں کھاتا تھا ، کوئی کھلا دے تو انکار نہیں کرتا تھا۔یہاں تک کہ ایک دن چھوڑ کر صابن سے منہ دھویا کرتا ۔ ستم ظریف کئی بار کہہ چکا تھا کہ شرلی بھائی میں گواہ ہوں کہ تم نے سب سے زیادہ فریب خود اپنے ہی دل کو دیئے ہیں۔لیکن اس دن قیامت ہی آگئی جب شرلی کو علم ہوا کہ جس مہینے کی سات تاریخ کو اس کی کمیٹی نکلنے والی تھی ،اس مہینے کی چھ تاریخ کو نانی کمیٹیاں والی ساری رقم لے کر غائب ہو گئی ۔ اس نقد نقصان نے شرلی کا دل توڑ کر رکھ دیا۔وہ خاموش آواز میں نانی کمیٹیاں والی کو بددعائیں دیا کرتا ۔ایک دن کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔اس کے اس طرح سے بغیر کسی وجہ کے کھلکھلا کر ہنسنے سے میں اور ستم ظریف بڑے حیران ہوئے ۔پوچھا کیا ہوا شرلی؟ کہنے لگا یار میں ایک عرصے سے نانی کمیٹی خور کو بددعائیں دے رہا ہوں، ابھی ابھی اچانک ایک خیال میرے دل آیا کہ او نادان جس خدا نے آج تک تمہاری کوئی دعا قبول نہیں کی ، وہ تمہاری بددعا کیونکر سنے گا ۔چل چپ کر اور اپنے دھیان کو کسی دوسرے گیان میں لگا۔میری ہنسی چھوٹ گئی۔میں نے شرلی کو احتیاط سے تھپکی دی اور کہا کہ شرلی یار تم اچھے آدمی ہو ،دفع کرو نانی کے فراڈ کو ،وہ اللہ کی پکڑ میں ضرور آئے گی۔چند روز بعد شرلی دھڑام سے کمرے میں داخل ہوا ،اس سے پہلے کہ اس کے اس طرح آنے کی وجہ پوچھتے ،اکھڑے سانسوں کے ساتھ کہنے لگا وہ نانی کمیٹیاں والی واپس آ گئی ،واپس آ گئی ،قسمے بالکل پہچانی نہیں جارہی ۔فل ڈرامہ بن کر آئی ہے۔لوگوں نے اسے گھیر رکھا تھا ، وہ بڑے اطمینان کے ساتھ کہانی سنا رہی تھی کہ اس کے گھر چور گھس آئے تھے اور اس سے سارے پیسے چھین کر فرار ہو گئے ۔وہ فوری طور پر تھانے گئی تھی ،تھانیدار نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے کسی عزیز رشتے دار کے ہاں چلی جائے ۔جب چور پکڑے گئے تو تمہیں اطلاع کر دیں گے۔بس اتنی سی بات ہے۔محلے میں کوئی بھی اس کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔لیکن پتہ نہیں کس طرح ،اس نے تھانیدار کو ساتھ ملایا ہوا ہے ۔تھانیدار نے ایک رضاکار سپاہی اس کے گھر کے باہر بٹھا دیا ہے تاکہ کوئی غصیلا محلے دار نانی فراڈن کا سر ہی نہ پھاڑ دے۔وہ تو بھلا ہو محلے کی اس دلیر خاتون کا ،جو دو وکیلوں کی بیوہ اور تیسرے وکیل کی بیوی ہے، اس نے اپنے حاضر سروس شوہر کی مدد سے نہ صرف نانی کمیٹیاں والی کے خلاف مقدمہ دائر کروایا ،بلکہ مسلسل پیروی اور اثر و رسوخ کے متناسب اور مناسب استعمال سے نانی کو مالی خرد برد کا الزام ثابت ہو جانے پر سزائے قید بھی دلوا دی۔اب نانی کمیٹیاں والی کو جیل کیا ہوئی ، شرلی مزید اداس اور مایوس ہو گیا۔پوچھا کہ یار تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے تھا نانی کے جیل جانے سے۔کہنے لگا اس کے جیل جانے سے خوشی تو ملے نہ ملے ،لیکن اب ہماری رقم ملنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
ایک روز شرلی نے خبر دی کہ نانی ضمانت پر رہا ہو گئی ہے۔محلے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ اس کی پشت پر تھانیدار کی حمایت اور سفارش موجود ہے۔جیل سے آنے کے بعد نانی کے طور طریقے ، انداز نششت و برخاست ، یہاں تک کے چلنے پھرنے کا انداز بھی تبدیل ہوگیا۔اس نے یہ بات پھیلانا شروع کردی کہ وہ جیل کسی مالی خرد برد کی وجہ سے نہیں ، سیاسی مخالفین کی سازش کی وجہ سے گئی تھی۔وہ بڑے اعتماد سے کہتی کہ جیل نے مجھے گہرے غوروفکر کا موقع دیا ہے ۔ شرلی حیران تھا کہ اسے یہ چالاکیاں کون سکھا رہا ہے۔ پھر ایک روز بتانے لگا کہ ایک ہوشیار موٹا اس کا مشیر بن گیا ہے۔یہ ہوشیار موٹا بنیادی طور پر پولیس کا مخبر شمار ہوتا تھا ،پھر اس نے اپنی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ پر پریس لکھوانے کے لیے ایک آن لائن اخبار جاری کر دیا ۔ ہوشیار موٹے نے اسے بہت ساری کتابوں اور ان کے مصنفین کے نام بھی یاد کرائے ،اور اسے سکھایا کہ وہ بس یہی باتیں کیا کرے ۔ہوشیار موٹے نے ایک سوشل میڈیا چینل پر ایک انٹرویو بھی اپنے موبائل فون سے ریکارڈ کر کے اپ لوڈ کروا دیا۔شرلی نے جس روز اپنے موبائل فون پر ہمیں نانی کمیٹی خور کا ہوشیار موٹے کو دیا گیا انٹرویو سنایا ،اس روز یقین آ گیا کہ اگر اب قیامت نہیں آئی ،تو پھر کبھی نہیں آئے گی ۔

Exit mobile version