کالم

نظام نہیں، ہم خراب ہیں

a r tariq

کھجور کی گٹھلی سے لے کر چنے کے دانے تک ، کاغذ سے لے کر شاپر تک، شیشے کی بوتل سے لے کر ٹین ڈبہ نما بوتل تک، سڑک پر پڑی ریت ،بجری ،سیمنٹ سے لے کر اینٹ ، روڑہ تک، استعمال شدہ کپڑوں سے لے کر بوسید ہ بوریوں تک، گھر ،دفتر ،پبلک مقامات تک موجود کچراسے لے کر گتہ ،ڈبہ ، پلاسٹک ، شیشہ تک ، بنتی ٹوٹتی عمارتوں کا ہر طرح کا ملبہ تک ، انہی نالیوں، نالوں ، گٹروں ، سیوریج لائن میں ڈال دیتے ہیں اور سب کچھ خراب کرکے ، پانی نکلنے کا ہر راستہ بند کرکے، گلی گلی ، محلے محلے، قریا قریا ، گاﺅں گاﺅں ہر افسر کی ہر ٹیبل پر مسلسل یہی شور مچائے ہوتے ہیں کہ بلدیہ خراب ہے۔ کچھ کرتی ہی نہیں ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے خراب بلدیہ نہیں،اس کے لوگ نہیں ، آپ کی گندگی صاف کرنےوالے صفائی ورکر نہیں ،آپ خود ہیں۔ خود میں ذرا سا بھی احساس نہیں اور چڑ ھ دوڑتے ہیں بلدیہ پر ، افسران پراور شروع ہو جاتے ہیں”کھچ فوٹو پر “کاش !اس کچرے اور کوڑے کی فوٹو لینے سے پہلے اپنی فوٹو بھی لے لیتے کہ جو سارے مسئلے کی اصل جڑاور سارے فساد کی اصل وجہ ہے ۔بہتر اور کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت ہم میں نہیں ہوتی اور کوسنے دوسروں کو لگتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ان بلدیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے روزانہ کی بنیاد پر پھینکے جانے والے کوڑے کی فوٹو لینے کی بجائے ہم سماج کے کوڑا پھینکتے لوگوں کی فوٹو لیں ، نالیوں ، نالوں ،سیوریج بند کرنے والے عوامل کی روک تھام کریں۔ اس سے شاید اور یقینا بلدیات کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کیا جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کسی مہذب اور دوسرے معاشرے میں بھی دیکھا ہے؟ جہاں ہر چیز ٹھیک اور گندگی نام کو بھی نہیں ہے ۔ وہاں ایسا کیوں؟وہاں ایسا اس لیے ہے کہ وہ لوگ صفائی پسند اور اپنے ملک اور معاشرے کو سنوارنے والے ہوتے ، ہمارے دیس کی باسیوں کی طرح بگاڑنے والے قطعی نہ ۔ وہ اپنے دیس میں کسی گلی محلہ ، سڑک و پبلک مقامات پر کوڑاکرکٹ تو دور کی بات، ایک جوس کا ڈبہ تک نہیں پھینکتے اور قانون پر عمل درآمد ایسے ہوتاہے کہ کسی کی جرا¿ت نہیں کہ خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہر سکے او رپھر وہاں کے حکمرانوں سے لے کر نچلے طبقے تک کوئی بھی غیر ذمہ دار نہیں ہے۔بے ایمانی او ر کرپشن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں سب ٹھیک ہے۔ ادارے ٹھیک کام کررہے ہیں اور لوگ اچھی بہتر اور خوشگوار زندگی بسر کررہے ہیں ۔ہر چیز سلیقے طریقے سے ملے گی ۔وہ لوگ ہماری طرح کے نہیں ہیں جبکہ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔نہ گلی محلے ،نہ بازار ، پبلک مقامات تک گندگی سے اَٹے ملتے ،وجہ کچھ نہیں ،نظام نہیں ہم خراب ہیں۔ہم عوام اتنی اکثریت میں ہو کر بھی کچھ ٹھیک نہیں کر پاتے او ربلدیہ کم عملہ ہو کر اس سے مکمل بہتری کی امید رکھتے ہیں۔عوامی تعاون کے بغیر کوئی ادارہ ٹھیک نہیں چل سکتا ، بلدیہ تو پھر بہت دور کی بات ہے۔ ہم بلدیہ کو بہت کوستے ہیں،سخت سست کہتے ہیں،ہزار باتیں سناتے ہیں ،شکایات سے بلدیہ سے لیکر افسران تک ٹیبل بھر دیتے ہیں۔ نفرت بھرے دل آزار میسجز کرتے ہیں مگر اُنہیں بالکل کچھ نہیں کہتے جو اِ س سب کے ذمہ دار ہیں۔ اُن سے سلفیاں اور فوٹو کھینچنے سے ہی نہیں تھکتے ، اُن کی تعریفوں سے ہی نہیں نکلتے ، انہوں نے یہ کردیا وہ کردیا جیسی نعرہ نماباتوں سے ہی فرصت نہیں ۔ یہ انہی کا کیادھرا ہے کہ یہ کردیا وہ کردیا کے چکر گھن چکر ترقیاتی کام میں کمیشن اور مال بناﺅ شکل میں اُوپر سے نیچے تک رشوت لگائے سب کئے ترقیاتی کاموں کا ایسا حشر نشر کردیتے ہیں کہ پھر یہ سب سنبھالے سے بھی سنبھلتا نہیں ہے۔ ذرا سوچو! ناقص میٹریل سے بنی خستہ حال نالیاں ،نالے ،گٹر ، سولنگ ، سڑکیں ،بچھے ہوئے ناکارہ پائپ کچھ ہی دنوں کے بعد ٹوٹ جاتے ،نالیاں،نالے ،گٹر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ، اندر پڑے پائپ مٹی تلے دبے اپنی اس بے بسی پر آہ و بکا کرتے ، چیخیں مارتے اس قوم کے” مسیحاﺅں “ ”افسروں“ اور”ٹھیکیداروں“ کے ”شاندار“ کاموں کی بند پڑے گواہی دیتے ۔ تو ایسے میں پھر خراب شہر پانی میںگھرے گھربارکا شکوہ ، صفائی کرتے ورکرزسے کیوں؟ ہمارا سب کچھ کھاجانے والے اِن ایم پی ایز ، ایم این ایز ، نام نہاد ٹھیکیداراور موجود افسروں سے کیوں کہیں کرتے ؟جو کمیشن اور ترقیاتی کاموں کے نام پر بہت زیادہ مال کھا جاتے ۔ افسوس ہمارے ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں بنتا ، نہ گلی ، نہ سڑک ، ہاں نام کی تختی بہت پائیدار ہوتی ہے ۔ سو میرا ایسے میں بصد احترام عوام سے کہنا ہے کہ ایسے میں بلدیہ کو کوسیے مت ،انہیں کام کرنے دیں ۔ اس دیس میں حقیقی معنوں میں تھوڑی حد تک ہی سہی اگر کوئی آپ کا حقیقی مسیحا ہے تو وہ یہ چند ہر جگہ پھرتے سینٹری ورکرز ہیں دوسرا اورکوئی نہیں۔کیاآپ نہیں سمجھتے کہ اگر ترقیاتی کام ٹھیک طریقے سے ہوں گے ، نالیاں، نالے ،گٹر ٹھیک طریقے سے بنائے جائیں گے تو گندگی تو دور کی بات پانی تک نہیں رک سکتا مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ جن کو کوسنا بنتا وہ سرآنکھوں پر ہیں اور جو سر آنکھوں پر ہونے چاہئیں انہیں ہم نے زمین پر دے مارا ہے ۔ اس کے ذمہ دار بلدیات والے نہیں ہم خود ہیں اگر خراب وہ ہیں تو ٹھیک ہم بھی نہیں ۔ بلدیات کے معاملے میں یہی وہ ہماری غلطی ہے جو شروع سے لیکر اب تلک ہم کررہے اور روک تھام ذرا سے بھی نہیں ہے۔ ڈسٹرکٹ قصور میں ڈپٹی کمشنر قصور اور چاروں تحصیلوں کے اے سی ایز ، ایڈمنسٹریٹرز ، چیف آفیسرز بلدیہ کی جانب سے ضلع خوب صاف ہو چکا ، باقی جو رہ گیا ہے وہ ”مسیحا ءضلع قصور“ ایم پی ایز ، ایم این ایز سے کروا لیں ، یقینا وہ باقی ماندہ شہر او رضلع کو بہتر طریقہ سے صاف شفاف اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔یقینا عوام اس بات پر بھی ضرور غور کرے گی ۔ آخر میں ایک اوربات یہاں صرف بلدیہ والے نہیں خراب ، یہاںسارے ہیں نواب، یہ شہر یہ گلیاں اور چبارے ،یہ ندی نالے ، سولنگ اور سڑکیں ،کیسے ہوں گے صاف ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri