قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران وزیراعظم کی تعیناتی کامرحلہ تادم تحریر طے نہیں پاسکا اور وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوسکے تاہم فریق اس بات پر مطمئن نظر آئی کہ مذاکرات کے دوسرے دور میں وہ کسی ایک نام پر متفق ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پاجائے گا۔نگران وزیر اعظم کی تقرری کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو مشاورتی عمل شروع کرنے کیلئے خط لکھا۔وزیراعظم نے خط میں کہا کہ آپ کو علم ہے صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی ہے، نگران وزیر اعظم کا تقرر کیا جانا مقصود ہے، آئین کی پاسداری کرتے ہوئے آپ کو مشاورت کی دعوت دیتا ہوں۔ خط میں وزیر اعظم شہباز شریف نے آئین کے آرٹیکل 224 کا حوالہ بھی دیا ہے۔ خط موصول ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈرراجہ ریاض نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت کے لیے وزیراعظم ہاو¿س پہنچے جہاں انھوں نے شہباز شریف سے نگران وزیراعظم کے حوالے سے مشاورت کی۔نگران وزیراعظم کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا نام بھی شامل ہے جو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے۔اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ نگران وزیراعظم کےلئے چھ نام ہمارے سامنے آچکے ہیں،میں اور وزیراعظم جلد اپنے ناموںپر غور کرلیں گے،جب تک کوئی نام فائنل نہیں ہوتا سامنے نہیں لائیں گے جبکہ وزیراعظم کاکہناتھا کہ16 ماہ کی مختصر ترین وفاقی حکومت تھی، وفاقی کابینہ ختم ہو چکی ، الیکشن میں ہر پارٹی کا اپنا اپنا منشور ہو گا، میرے لیے 13 جماعتی اتحاد چلانا آسان کام نہیں تھا، 16ماہ میرے کیریئر کے مشکل ترین مہینے تھے، ہم کس حد تک کامیاب ہوئے فیصلہ عوام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے بلوں کو معاف کر کے انہیں سبسڈیز دیں، آئی ایم ایف معاہدے کو بحال کرنا جان جوکھوں کا کام تھا، ڈیفالٹ اور ایک حوالے سے مارشل لا سے بھی بچے، گزشتہ حکومت کی بدترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے دوست ملک دور ہو چکے تھے، سعودی عرب نے ہر محاذ پر پاکستان کی مدد کی۔نیز وفاقی سیکرٹریز سے الوداعی ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ گزشتہ حکومت میں اچھے افسران کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہ ملک کی بڑی بدقسمتی ہے، کہا جا رہا تھا کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، اگر ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو ملک کے بڑے خراب حالات ہوتے۔ اتحادی حکومت کو اچھے تعاون کے ساتھ چلایا گیا، مخلوط حکومت میں چاروں صوبوں کی نمائندگی تھی، سولہ ماہ کا عرصہ چیلنجز سے بھرپور تھا، عوام کی خدمت کی پختہ سوچ ہو تو اتحادی حکومت بھی چل سکتی ہے، افسران نے سولہ ماہ بڑی محنت سے کام کیا، آپ نے ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔ مشکل سے مشکل مسائل کے حل کے راستے تلاش کئے، جنہوں نے کمٹمنٹ سے کام کیا بدقسمتی سے وہی نشانہ بنے، ہماری ایک سوچ تھی کہ ہم نے عوام کیلئے کچھ کرنا ہے، بے جا تنقید کر کے پبلک سروس کو بڑا ڈینٹ لگایا گیا، گوادر میں گزشتہ چار سال سے بند پڑے منصوبے چل پڑے، منصوبے اس لیے بند رہے کہ فلاں حکومت کو کریڈٹ جائے گا، یہ وہ واقعات ہیں جس کی وجہ سے آج یہ حالات ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کا ہونا ایک بڑی کامیابی ہے، افسران نے سیلاب کے دوران بہترین کام کیا، خارجی محاذ پر بھی بڑی ایفرٹ ہوئی، خارجی تعلقات کو بگاڑنے میں ہمارے اپنوں نے بڑا رول ادا کیا، بے بنیاد الزامات دوست ممالک پر لگائے گئے، مجھ پر چین سے 45 فیصد کمیشن لینے کا الزام لگایا گیا، سی پیک کیخلاف پراپیگنڈا کیا گیا۔ ہم سب مل کر پاکستان کی اجتماعی خدمت پر مامور ہیں، ہمیں آج قومی اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے، ایک لڑی میں پرو کر ہمیں پاکستان کی خدمت کرنی ہے تاکہ وہ وقت آئے جب بھکاری پن کو ہم ہمیشہ کیلئے خدا حافظ کہیں۔وزیراعظم ہاو¿س میں کوشش کی کہ وسائل کو ممکن حد تک بچایا جا سکے، آج سے چند ماہ پہلے ہماری معاشی صورت حال چیلنجنگ ہوگئی تھی، رات کو ہماری کابینہ ختم ہوگئی، کچھ وزرا نے تنخواہ نہیں لی، گاڑیاں واپس کردیں۔ اللہ نے ہمیں معدنیات کی بے پناہ دولت دی، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قابل لوگ دیے ہیں، ماضی میں ہم نے وقت کھویا اور نقصان اٹھایا، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنی تقدیر بدلنی ہے، ہمیں ملک کو مشکلات سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے کر جانا ہے،۔
الیکشن کمیشن کا نئی تقرریوں پر پابندی کا اعلان
اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر کے سرکاری محکمہ جات نئی تعیناتیوں اور تبادلوں پر پابند ی عائد کردی ہے تاکہ ملک بھر میں آزادانہ ،منصفانہ اور شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے کیونکہ ماضی میں دیکھنے میں آیا کہ بعض حکومتیں جاتے جاتے اپنے من پسند افسران کوتعینات کر جاتی تھی جو بعد میں الیکشن کے دوران اپنے سیاسی وابستگی اور وفاداری کو نبھاتے ہوئے دھاندلی کا سبب بنتے تھے چنانچہ اس بار حسب روایت یہ اقدام اٹھایا گیا ہے ،قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے وفاقی سطح پر پوسٹنگ ٹرانسفر پر پابندی لگا دی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہو چکی، نگران سیٹ اپ کی تشکیل تک ہر قسم کی ٹرانسفر پوسٹنگ روک دی جائے، جلد نگران وزیر اعظم اور کابینہ کی تشکیل ہو جائے گی۔خط میں مزید لکھا گیا کہ علم میں آیا ہے کہ بڑے پیمانے پر وزارتوں اور ڈویژنز میں ٹرانسفر پوسٹنگ کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، نگران حکومت کے آنے تک ایسے کسی اقدام سے گریز کیا جائے، نگران حکومت کی تشکیل کے بعد قانون اور پالیسی کے مطابق ٹرانسفر پوسٹنگ کی جا سکتی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہدایت کے بعد نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے صوبائی کابینہ کو فارغ کر دیا ہے۔نگران وزیر اعلی محمد اعظم خان سے کابینہ ارکان نے ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوئی، اس دوران نگران وزیر اعلی نے صوبائی وزرا، معاون خصوصی اور مشیروں سے استعفے طلب کیے، جس کے بعد متعدد وزرا اور مشیروں نے استعفے جمع کرا دیئے۔صوبائی وزیر اطلاعات کے مطابق کابینہ کے 19 ارکان نے وزیر اعلی خیبرپختونخوا کو استعفے پیش کیے، کابینہ کے باقی ارکان اپنے استعفے جمع کرائیں گے۔واضح رہے نگران کابینہ خیبرپختونخوا میں 14 وزرا، 4 مشیر اور 6 معاونین خصوصی شامل تھے، الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ ہفتے سیاسی وابستگیاں رکھنے والے کابینہ ممبران کو ہٹانے کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔
بھارتی فوج میں خواتین افسروں کے ساتھ زیادتی کی بازگشت
بھارتی فوج کے ظلم اور بربریت کے چرچے اب صرف مسلمانوں اور دیگراقلیتوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اب اس کی لپیٹ میں خود اس کی اپنی جونیئر افسرز بھی آگئیں ہیں ،بھارتی فوج میں خواتین اہلکاروں کی عصمتیں ان کے سینئرز کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ گزشتہ 3برسوں کے دوران 123خواتین اہلکاروں نے جنسی ہراسگی اور زیادتی کی شکایات کیں،بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں جس پر عالمی میڈیا نے بھی بھارت کو خواتین کے لیے غیر محفوظ ملک قرار دیا ہے لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی فوج میں بھی خواتین محفوظ نہیں،اس حوالے سے خود تبت بارڈر پولیس کی ڈپٹی کمانڈنٹ کرنجیت کور نے 2019میں ہی بتا دیا تھا کہ بھارتی افواج میں خواتین اہلکاروں کو مرد اہلکاروں کو خوش کرنے کے لیے بھرتی کیا جا تا ہے،بھارتی میں خواتین اہلکاروں کے ساتھ جنسی زیادتی سے متعلق مزید ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 2007سے تاحال بھارتی فوج میں خواتین اہلکاروں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 1ہزار 243واقعات رونما ہوچکے ہیں۔یہ پہلا واقعہ نہیں تھا 2005میں بھی اسکواڈرن لیڈر انجلی گپتا کو ائیر مارشل انیل چوپڑا کی طرف سے دست درازی کی شکایت پر الٹا انھیں ہی معطل کر دیا گیا تھا۔بھارتی فوجی افسران اور اہلکار صرف اپنے ہی ملک میں خاتون اہلکاروں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں ملوث نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں،کانگو میں امن مشن پر مامور بھارتی فوجی جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے تھے جب کہ تین بھارتی اہلکاروں کو جنوبی افریقا میں خاتون سے جنسی زیادتی پر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اداریہ
کالم
نگران وزیر اعظم کے نام پر ڈیڈ لاک برقرار
- by web desk
- اگست 12, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 336 Views
- 1 سال ago