دسمبر 2014میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے نے وطن عزیز میں سکیورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان لگا دیا تھا جس کے بعد عسکری قیادت اور سیاست دان دہشت گردی کے خاتمے کےلئے سر جوڑ کر بیٹھے اور ہنگامی بنیادوں پر متفقہ طور پر 20 نکات پر مشتمل قومی ایکشن پلان ترتیب دیا جس کی منظوری پارلیمان سے لی گئی اور اس پر عملدرامد کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جس کے باعث دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پانے میں مدد حاصل ہوئی۔سال 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے قومی ایکشن پلان پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے 14 شقوں تک محدود کر کے اس کی ترجیحات تبدیل کر دیں جس کے باعث اس کی زیادہ توجہ بیرونی خطرات کی جانب مبذول ہو گئی۔سال 2024 میں موجودہ حکومت نے قومی ایکشن پلان کو از سر نو تشکیل دیا اور اس حوالے سے ترجیحان کا ازسرتعین کیا۔ قبل ازیں پلان کی 20 میں سے 14 شقوں پر عمل نہیں ہوا تھا جس کے باعث اس پر عملدرآمد کی رفتار سست روی کا شکار رہی۔ افواجِ پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ردا لفساد، ضرب عضب جیسے آپریشن کئیے اور حال ہی میں آپریشن عزم استحکام شروع کیا ہے۔ اس وقت بھی ملک میں دہشت گردی کی لہر موجود ہے، غیر یقینی کی صورتحال ہے اور دہشت گردی کا عفریت ایک بار سر اٹھا رہا ہے۔ چناں چہ وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر نیشنل ایکشن پلان پر ازسرنو عمل درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے وفاق اور صوبوں میں مضبوط روابط ضروری ہیں کیونکہ پلان پر بڑی حد تک صوبوں نے ہی عمل کرنا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی سست روی اور ناکامی کی ایک وجہ صوبوں کا اس پر عمل درآمد نہ کرنا تھا۔ اس وقت تین صوبوں میں اتحادی حکومتیں برسراقتدار ہیں اور صرف کے پی کے میں ہی پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں افغان حکومت سے مذاکرات کر کے تحریک طالبان پاکستان کو تقویت بخشی۔ کے پی کے حکومت نے اگر نیشنل ایکشن پلان کو سنجیدہ نہ لیا تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ پلان کی کامیابی کے لیے اب اچھے اور برے طالبان میں بھی کوئی فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق دہشت گردوں کو کابل کی پشت پناہی حاصل ہے لہذا ضروری ہے کہ حکومت پاکستان افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج ، ریاستی اداروں، صوبائی حکومتوں اور عوام سمیت سب کو ایک ساتھ چلنا ہوگا۔ سیاسی مصلحتوں اور وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر 100 فیصد عمل درامد کو یقینی بنانا ہو گا۔ علاوہ ازیں، شدت پسندوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فوجداری نظام عدل میں فوری طور پر اصلاحات لانا ہوں گی۔ کریمینل سسٹم کو مضبوط کرنا ہو گا اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اضافے کے ساتھ انہیں مزید متحرک کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ ایسی پولیس اور پراسیکیوشن کی تشکیل جو دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دلا سکے ۔کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت سرکاری گواہوں اور شدت پسندوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور مقدمات کا فیصلہ مقررہ مدت میں یقینی بنایا جانا چاہیے۔ پلان کا سب سے اہم نکتہ نیشنل کانٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنانا تھا مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس وقت بھی انٹیلیجنس اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان ہم آہنگی میں شدید فقدان ہے۔ نیکٹا کے بورڈ اف گورنرز کے چیئرمین وزیراعظم ہیں، یہ ضروری ہے کہ وہ اتھارٹی کا باقاعدگی سے اجلاس طلب کیا کریں۔۔قومی ایکشن پلان میں اقلیتوں کو تحفظ دینے ،مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تشدد اور نفرت انگیز مواد پر کام نہیں کیا گیا۔ شدت پسندوں کی مالی معاونت روکنے کےلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں ریگولر کرنے کے حوالے سے بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور 32 ہزار مدارس میں سے 16 ہزار رجسٹرڈ ہیں، 16 ہزار کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ 10 سال بعد بھی تعلیمی اداروں اور مدراس میں نصاب کی تبدیلی کے معاملے کو بھی سردست حل نہیں کیا جا سکا۔ ضروری ہے صوبوں کو اعتماد میں لے کر اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے۔ پی ٹی ائی کے دور حکومت میں پنجاب اور کے پی کے میں مدارس کو فنڈنگ کی گئی۔ میڈیا میں دہشت گرد تنظیموں کو بڑھا چڑھا کر اور دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کئی صحافی اور یوٹیوبر یہ کام کر رہے ہیں۔ فاٹا اور پاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کے باوجود وھاں کے عوام کو انسانی حقوق اور انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہو گئی ہے اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی اور یہ سلسلہ پوری شد و مد سے جاری ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کے علاوہ ان کے فنان فنانسرز اور سہولت کاروں کے خلاف موثر آپریشن کی ضرورت ہے، اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کراچی میں شرپسند دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ بلوچستان میں مذہبی اور قوم پرستی کے نام پر دہشت گردی جاری ہے وھاں سماجی تبدیلیوں کے ساتھ انتظامی نیٹ ورک مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کا کردار فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے جنہیں اپنے سیاسی عزائم کو پس پشت رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی اداروں کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس باب میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد رشد چودھری کھلے بندوں یہ کہہ چکے ہیں کہ آپریشن عزم استحکام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ہے اور اس آپریشن کی مخالفت کرنے والے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا، عوام کا تحفظ، ملک میں امن و امان اور استحکام نہیں چاہتے۔ اس بیان سے فوج کے عزم کا اظہار تو ہو رہا ہے مگر عوام کی حمایت ہر ایسی کارروائی کے لیے اہم ترین کردار ادا کرتی ہے اور سیاسی جماعتیں چوں کہ عوام کی نمائندہ ہیں تو اس حوالے سے ان کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردی کے عفریت کے خلاف پوری طاقت سے کارروائی کی جا سکے۔