9 مئی کو وطن عزیز میں جو کچھ ہوا یہ گھا ہے جو قومی وجود کو لگا ہے اور اس کی تکلیف روح تک اتر گئی ہے۔ جسم پر لگے گھا مندمل ہو جاتے ہیں لیکن روح پر جو زخم لگتا ہے وہ کبھی مندمل نہیں ہوتا۔
نفرت اور اندھی عقیدت پر مبنی سیاست اعتدال سے محروم ہوتی ہے۔ اس میں ایک بت تراش لیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہ بت جو ہم نے اپنے ہاتھوں تراشا ہے یہ اب ہماری ریڈ لائن ہے ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک قومی ریاست یعنی جدید نیشن سٹیٹ میں ریڈ لائن کوئی بھی فرد نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا ۔ کوئی لیڈر کسی ریاست میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو جائے اسے ریڈ لائن نہیں بنایا جا سکتا ۔
ریڈ لائن ریاست ہی ہوتی ہے۔ ریاست کے مفادات ہوتے ہیں ۔ ریاست کی سلامتی ہوتی ہے ۔ ریاست سے مقدم کوئی نہیں ہوتا اور ریاست سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا ۔
ریاست کی پھر کچھ علامتیں ہوتی ہیں۔ ان علامتوں کی توہین ریاست کی توہین سمجھا جاتا ہے اور ان کی حرمت کے خلاف کوئی اقدام ریاست کی حرمت پر حملہ تصور ہوتا ہے ۔
ان علامتوں میں سے ایک علامت قومی پرچم بھی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قانون میں قومی پرچم کی توہین پر باقاعدہ سزا رکھی گئی ہے کیو نکہ وہ صرف کپڑے کا ایک ٹکرا نہیں ہوتا وہ ریاست کی علامت اور نشانی ہوتا ہے ۔
شہدا اور ان سے منسوب یاد گاروں کو بھی یہی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ تقدس کی حامل ہوتی ہیں ۔ ان سے ریاست کی قدرو منلت وابستہ ہوتی ہے۔ شہدا کی یادگاریں دفاع وطن کے عزم کا استعارہ ہوتی ہیں۔ وہ نشان منزل ہوتی ہیں۔ وہ اس مقدس لہو کے احترام کی نشان منزل ہوتی ہیں جو ملک کے لیے بہا ہوتا ہے۔
ایک نیشن سٹیٹ کے اندر شہدا کی تکریم اور شہدا کی یاگاروں کی تکریم قومی وقار کی نشانی کے طور پر ریاست کی ریڈ لائن ہوتی ہیں۔
اس ملک میں عشروں سے احتجاج بھی ہوئےا ور جلسے جلوس بھی نکالے گئے لیکن کسی نے قومی وقار کی ان نشانیوں کو بے تووقیر کرنے کی جسارت نہیں کی۔ یہ محبت کی نشانیاں ہیں۔ یہ ساری قوم کی سانجھی علامتیں ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ یہ نشانیاں اور یہ علامتیں کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔
ریڈ لائن 9 مئی کو کراس ہوئی جس روز جناح ہاس کا تقدس پامال ہوا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی ہوئی ۔ عمران خان نہ ریڈ لائن تھے نہ ان کی گرفتاری سے کوئی ریڈ لائن پامال ہوئی ۔
عمران خان کی گرفتاری کوئی دنیا کا انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ یہ معمول کی کارروائی تھی ۔ نیب کے مقدمات میں گرفتاریاں ہوتی آئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ اس گرفتاری سے کسی کو شکایت تھی تو ااس کا ایک قانونی طریقہ کار موجود تھا ۔ لیکن اس گرفتاری کے بعد جسس طرح کا رد عمل دیا گیا یہ شرم ناک تھا۔ اس رد عمل میں ریڈ لائن کراس کر لی گئی۔
جو جو لوگ اس عمل میں بلوائیوں کے ساتھے تھے ، ان کو اکسا رہے تھے یا ان کو شہہ دے رہے تھے یہ سب برابر کے مجرم ہیں۔ قانون کو ان پر قوت کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے ۔ اس عمل کی ھوصلہہ شکنی یہیں نہ کی گئی اور بھر پر طریقے سے نہ کی گئی تو یہ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
کوئی بھی ریاست ایسے رویوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست کی ریڈ لائن ریاست اور اس سے جڑی قومی علامتیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی فرد کسی ریاست کی رید لائن نہیں بن سکتا۔
جن لوگوں نے اپنی جوانی اور اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کیا اگر ہم ان کی تکریم کو بھی یقینی نہ بنا سکین تو اتنا بڑا جرم ہے جس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔