کالم

وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے جرا¿ت مندانہ خطاب

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم ہر وزیر اعظم شہباز شریف کا غزہ میں پیدا شدہ انتہائی صورت حال پر سامنے آنے والا رد عمل جرات مندانہ اور حقیقت پسندانہ ہے کشمیر اور فلسطین کے ایشوز پر وزیر اعظم کے انداز اور باڈی لینگویج سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ انسانی حوالے سے سلگتے ان ایشوز پر نہ صرف خود سنجیدہ ہیں بلکہ وہ ان کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بھی سمجھتے ہیں بلا شبہ عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کے ایشوز کے ساتھ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر وزیر اعظم شہباز شریف کی جرات مندانہ آواز عالم اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کے جذبات واحساسات کی بھی بھرپور ترجمانی تھی دنیا بھر میں فلسطینی اور کشمیری دو ایسی مظلوم ترین قومیں ہیں جو دہائیوں سے طاقت کے نشے میں بدمست حکمرانوں کی بدترین درندگی کا شکار ہیں لیکن صد افسوس کہ دنیا بھر میں کوئی ایک بھی حکمران ایسا نہیں جو ان دونوں قوموں سے نام نہاد ہمدردی کی بجائے ان کی عملی مدد کر سکے آج غزہ میں اسرائیلی فوج کی درندگی عروج پر ہے تو دوسری جانب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے کشمیر اور فلسطین 75 سال سے زائد عرصے سے عالمی برادری اور انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ شاید ان کے مسائل کا کوئی حل نکل سکے ان پر ہونے والے مظالم بند ہو جائیں دنیا نے ان کے حوالے سے جو قراردادیں منظور کر رکھی ہیں شاید ان پر عملدرآمد کرایا جائے اور ان خطوں کو ان کا جائز اور بنیادی حق دیا جائے مگر سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں عالمی برادری سے کوئی ایسی امید کی جاسکتی ہے اقوام متحدہ کے فیصلے اس کی قراردادیں سفارشات سب کچھ اسرائیل اور بھارت ہوا میں اڑا رہے ہیں دونوں مقبوضہ خطوں میں ان کی ریاستی دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیے لیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی لیکن اقوام عالم کی بہت سی قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اس نے بڑے آرام اور سکون کے ساتھ جنیوا میں دم توڑ دیا دوسری جنگ عظیم کے بعد سان فرانسکو امریکہ میں 25 اپریل 1945 سے 26 جون 1945 تک منعقدہ پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور اور اس کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا بعد ازاں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا کسی ایسے جھگڑے یا موضوع کی تفشیش کرنا جو بین الاقوامی نزاع پیدا کر سکتا ہو بین الاقوامی تنازعوں کو سلجھانے کے بارے میں منصوبے تیار کرنا سلامتی کونسل کے فرائض اور اختیارات میں شامل ہے سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی طرف سے کارروائی کرتی ہے یہ سب اراکان سلامتی کونسل کے فیصلوں کی تعمیل میں ہامی بھرتے ہیں اور اس کی درخواست پر بین الاقوامی امن اور سلامتی کےلئے مسلح فوجیں یا دیگر مناسب اقدام کرتے ہیں سلامتی کونسل کی کارروائی ہمیشہ جاری رہتی ہے اس لیے رکن ملک کا ایک ایک نمائندہ ہر وقت اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں موجود رہتا ہے سلامتی کونسل جہاں چاہے اپنا اجلاس فورا منعقد کر سکتی ہے فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے چیف آپ سٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر معرض وجود میں آنے والی اقوام متحدہ کی تشکیل کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا تھا مگر 24 اکتوبر 1945کو اپنے قیام سے لے کر اب تک 78 برسوں میں ڈھائی سو سے زائد جنگیں ہوچکی ہیں ادارے کے قیام کا دوسرا بڑا مقصد اقتصادی اور سماجی ترقی بھی لانا تھا تاہم ایک بات اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اقوام متحدہ کے قیام سے قبل دنیا دو عالمی جنگیں دیکھ چکی تھی جن میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے تھے اگرچہ اس دوران دنیا ایک سرد جنگ میں مسلسل مبتلا رہی ہے اقوام کے قیام کے بعد تیسری عالمی جنگ تاحال نہیں ہوئی ہے ابھی یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے یا اس کے نہ ہونے کی وجہ ایٹم بم کی تباہی کا باہمی خوف ہے یا یہ دونوں عوامل کار فرما ہیں یا کوئی اور وجہ ہے دنیا بھر میں موجود تنازعات خصوصا تنازعہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن رہا اور یہ عالمی ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک ان دونوں تنازعات کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے اقوام متحدہ کی تنازعہ فلسطین اور کشمیر کے حل میں ناکامی کی بنیادی ذمہ داری سلامتی کونسل پر عائد ہوتی ہے جس کے پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور موجود ہے اور وہ اس طاقت کا استعمال عدل کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لئے استعمال کرتے ہیں دنیا بھر میں حل نہ ہونے والے تنازعات اور متنازعہ خطوں کو حل کرنے کی ایک طویل فہرست موجود ہے لیکن1947 سے لے کر اب تک کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور اب اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں کے جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے تنازعہ کشمیر کسی بھی وقت ایک تباہ کن جنگ کو بھڑکا سکتا ہے جو پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے دوسری جانب مشرق وسطی میں فلسطین کا تنازع آج بھی ایک سلگتی ہوئی آگ ہے جس میں نکلنے والی چنگاریاں اب شعلہ بن کر کسی بھی وقت پوری دنیا کے امن کو تہہ وبالا کرنے کو تیار ہیں اقوام متحدہ نے سنہ 1948 میں اسرائیل ریاست کے قیام کےلئے قرارداد منظور کی تھیں لیکن انھیں قراردادوں میں مقامی فلسطینی عربوں کا حق بھی تسلیم کیا گیا تھا اور ان کی اپنے آبائی گھروں میں واپسی کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے اب بھی وقت ہے عالمی طاقتیں اپنی سمت کو درست اور سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تصادموں اور مفادات کو الگ کرتے ہوئے تنازعہ فلسطین’ کشمیر کے حل کی جانب پیش رفت دنیا اور غیر مستحکم علاقوں اور خانہ جنگیوں میں مصیبت زدہ اقوام کا احساس اور دوسرے ممالک اور اقوام متحدہ کے ساتھ قدم بقدم بحرانوں کا خاتمہ کریں اور ایک روشن مستقل کے نقیب بنیں عالمی طاقتوں نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنا تکبر جاری رکھا تو اس کا مطلب اقوام متحدہ کے پہلے سے کمزور ہوتے ہوئے ادارے کو مسمار کرنا اور تنازعات اور مسائل کو مزید خراب کرنا ہوگا نا انصافی اور ظلم پر مبنی اسرائیل اور بھارت کا رویہ عالمی امن کےلئے مستقل خطرہ بن چکا ہے بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں سے نا واقف ایک عام آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو انصاف اور عالمی قوانین کے مطابق حل کر دیا جائے تو دنیا میں اضطراب ختم ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے