Site icon Daily Pakistan

وزیراعظم کا چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کیلیے قومی اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ

وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا

وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے قانونی سازی کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہیں، جسٹس جمال اور جسٹس مںصور کے کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہ کی تو مورخ معاف نہیں کرے گا۔
یہ بات انہوں نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا کل جاری کیا گیا تحریری فیصلہ ایوان میں پڑھ کر بھی سنایا۔سپریم کورٹ کے دونوں ججز کا اختلاف پر مبنی یہ تحریری فیصلہ کل سامنے آیا ہے۔ دونوں ججز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس کیس کے بنچ کا حصہ تھے اور انہوں نے یکم مارچ کو جاری کردہ 90 روز میں انتخابات کرانے کے چیف جسٹس کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔واضح رہے کہ دونوں ججز نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے اور خصوصی بینچ کو تشکیل دینے کے اختیارات میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 1973ء کے آئین کو بنے 50 سال ہوگئے، یہ آئین اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو اور پوری سیاسی قیادت نے تشکیل دیا تھا اور ان سب نے اپنے اختلافات بھلاکر یہ آئین بنایا۔انہوں ںے کہا کہ اس ایوان میں مسلمان بیٹھے ہیں اقلیتی ممبران بھی بیٹھے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان اسی آئین میں درج ہے، ملک کا مذہب اسلامی اور سیاست جمہوری ہے جو آئین میں درج ہے، مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرورکھا ہے یہ ہمارے زعما کی جدوجہد تھی جنہیں تاریخ یاد رکھے گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پچھلے سال ہم اپویشن بنچوں ہر بیٹھے تھے، مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے آئین کے مطابق عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا، موجودہ حکومت میں موجود سیاسی جماعتوں نے ریاست بچانے کے لیے سیاست کو داؤ پر لگایا، یہ پوری قوم کے لیے ایک سبق تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ اس آئین نے اختیارات کی تقسیم واضح کردی، مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات بیان کردئیے، ریڈلائن لگادی کہ کوئی اس کو عبور نہیں کرسکے گا، بعد میں تاریخ کے واقعات کیا کیا ہوا سب کے سامنے ہے اور آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے، آئین میں موجود مقننہ کے اختیارات عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا اور اسے آناً فاناً مختلف اداروں سے چھوٹ ملتی ہے، ایک خاتون جج کے بارے میں اس نے جو کہا کسی نے اس کا نوٹس نہیں کیا، حقائق پر مبنی جو مقدمات بنے ہیں وہ پوری قوم کے سامنے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو کس طرح اپوزیشن کے لوگوں کی وچ ہنٹنگ کی گئی، جھوٹے مقدمات بنائے گئے جیلوں میں بھیجا گیا لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، قوم کی ایک بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا، قوم کی ایک بیٹی جیل میں باپ سے ملنے جاتی ہے اس کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔انہوں ںے کہا کہ ایک لاڈلے نے آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، اس لاڈلے نے اسی پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا، اس لاڈلے اور اس کے حواریوں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر گندے کپڑے لٹکائے تھے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے چار سالہ دور میں قرضہ جات میں ستر فیصد اضافہ ہوا، عمران خان کے دور میں ایک نئی اینٹ تک نہیں لگائی گئی، مخلوط حکومت نے شبانہ روز محنت سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، آئی ایم ایف کے ساتھ مکمل آن بورڈ ہیں، ماضی کی وعدہ خلافیوں کی بدولت آئی ایم ایف قدم قدم پر گارنٹی مانگ رہا ہے، وزیرخزانہ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بڑی محنت کی۔وزیراعظم نے کہا کہ بہت ہوگیا قانون اپنا راستہ ضرور لے گا ہم لاڈلے کو پاکستان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ 80 ہزار پاکستانیوں نے، افواج پاکستان اور پولیس نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دیں، آج نیازی دہشت گردوں کو شیلڈ بنا رہا ہے، زمان پارک میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور ضمانتوں پر ضمانتیں دی جا رہی ہیں، قومی اسمبلی کو اس معاملے پر نوٹس لینا ہوگا، اس سے پہلے کےدیر ہوجائے ایوان کو ٹھوس اقدام اٹھانا ہوگا۔شہباز شریف نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد کو جوائنٹ چیف بنانے کا فیصلہ کابینہ کی مشاورت سے کیا، ہم ہر فیصلہ کابینہ میں کرتے ہیں تمام اداروں کو بھی فیصلہ اپنی کابینہ کی مشاورت سے کرنا چاہئے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر قابل آفیسر ہیں جنہیں اعزازی شمشیر ملی ہے۔

Exit mobile version