ساجد علی ملک لندن سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع برسٹل میں مقیم ہیں ابتدائی تعلق میرپور سے ہے بچپن میں ٹائی فائڈسے ایک ٹانگ سے معذور ہوگئے اب بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کیئے برطانیہ چلے گئے شادی ہوئی اولاد یونیورسٹیوں تک جاپہنچی معاشی فکروں سے آزاد ہو گئے معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا، اب بھی اپنا کام کاج کرتے ہیں اللہ بھلا کرے برطانیہ کا کہ ریاست واقعی ماں کی طرح ان لوگوں کو سپشل افراد کا درجہ دیکر ان لوگوں کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ انہیں معاشرے میں اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں چھوڑتی۔ عام آدمی سے بڑھ کر زیادہ یہی معذور افراد ہی سپیشل افراد کہلاتے ہیں برطانیہ اور یورپ میں معذور افراد کےلئے دی جانے والی مالی امداد پر تو پورا خاندان گزر اوقات کرلیتا ہے انکی نہ صرف حکومتی سطح پر کفالت کی جاتی ہے بلکہ تعلیم سے لیکر سماجی سرگرمیوں تک معاشرے میں اس طرح انہیں شامل کیا جاتا ہے کہ جس طرح ہمارے پاکستان میںVIPرہتے ہیں۔کوئی دو سال پہلے ساجد علی نے میرے ہمراہ دھیرکورٹ آزاد کشمیر اور پھر مظفرآباد تک اور پھر واپسی راولپنڈی تک کا سفرکیا۔ ساجد علی برطانیہ کے اس نظام کے عادی ہیں جہاں معذور افراد کےلئے الگ باتھ رومز ہوتے ہیں راولپنڈی سے دھیرکورٹ تک ایک طرح سے روزے میں ہی رہے کہ انہیں باتھ روم جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ واپسی پر ہم مظفرآباد سے نکلے تو بے چارے ساجد علی انگلش ٹوائلٹ ڈھونڈتے رہے کہ وہ وضو کرسکیں لیکن کسی جگہ یہ سہولت ہی نہیں مل سکی دھیرکورٹ کے رہائشی معروف سماجی اور کاروباری شخصیت جو خود برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں بھی مقیم ہیں انہوں نے اپنی رہائش گاہ واقع دھیرکوٹ میں ایک معذور افراد کےلئے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں ساجد علی مہمان خصوصی تھے گرد و نواح کے بہت سارے معذور افراد نے شرکت کی نیلابٹ ویلفیئر فانڈیشن اور معزور افراد کےلئے کام کرنے والی تنظیم احساس ویلفیئر سوسائٹی کے چیدہ چیدہ افراد سے بھی مجھے ملنے کا موقع ملا جن میں کوئی 20 کے قریب معزور افراد نے شرکت کی۔ سردار جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ معاشرے کے معذور افراد کی بھلائی ہی ہم سب کا اولین مشن ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ معذور افراد کےلئے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ناصر الطاف چیئرمین احساس ویلفیئر سوسائٹی آف سپیشل پرسنزز نے کہا کہ انہوں نے خود دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کی ۔ اور بڑی مشکل سے ملازمت حاصل کی۔ کارگل محاذ میں اپنی ایک آنکھ سے محروم ہونےوالے پاک افواج کے میجر ریٹائرڈ راجہ ممتاز صدیق نے کہا کہ معذور افراد کیلئے ورکشاپس ہونی چاہئے ۔ ڈیٹا بیس ہونا چاہئے پہاڑی علاقوں میں ویل چیئرز کےلئے اکثر سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کےلئے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ مکتوم ابن فار بلائنڈ سے سیاب کمال اور سماجی رہنما سردار حماد گل بھی شامل تھے۔میں نے وہاں بعض معزور خواتین، نابینا افراد اور 8اکتوبر 2005کے زلزلہ متاثرین سے بات چیت کی اور ان کی روداد سنی تو میں اتنا حیران اور پریشان ہوا کہ آج تک سنبھل نہیں سکا میں سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کےلئے بنائی جانےوالی ریاست پاکستان میں معذور اور کمزور افراد کےلئے ہم کس طرح کا برتاو¿ روا رکھ رہے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ سے جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں ہمارے معاشرے میں معذور افراد کو پیشہ ور بھکاری بنایا جاتا ہے تعلیم سے دور ،ہمدردی کے بجائے حقارت کی نگاہ سے انہیں دیکھا جاتا ہے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے بنیادی ضروریات سے ہی محتاج رکھا جاتا ہے ملازمت بھی مہیا نہیں کی جاتی۔میں نے پروگرام میں شامل معذور افراد سے وعدہ کیا کہ میں انکے مسائل کو اجاگر کرتا رہونگا پاکستان تو بہت بڑا ملک ہے میں اس سلسلے میں پاکستان کے دیگر علاقوں کے معذور افراد کی حالت زار کو بھی سامنے لانے کی کوشش کرتا رہونگا فی الحال صرف یہاں آزاد کشمیر کی بات کریں تو آزادکشمیر کے دس اضلاع میں صرف مظفرآباد ہی ایک ایسا ضلع ہے جہاں گورنمنٹ کا ایک ادارہ "نیشنل ایجوکیشن فار سپشل پرسنز "کام کررہا ہے باقی9 اضلاع میں ایسا کوئی ادادہ یا سنٹر معزور افراد کےلئے قائم ہی نہیں کیا گیا معذور افراد کےلئے کام کرنےوالی تنظیم چراغ منزل کی بانی و چئیرپرسن محترمہ نسیم عزیز جو خود وہیل چیئر پر تھیں اور پیشے کے اعتبار سے باغ آزاد کشمیر میں سکول ٹیچر تھیں۔نسرین عزیز نے بتایا کہ آزادکشمیر میں معذور افراد کا تناسب 20فیصد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے یہاں پر دشوار گزار راستوں کی وجہ سے اکثر لوگ حادثات کا شکار ہو تے ہیں پیدائشی طور پر اور بیماریوں سے بھی معذوری کی شرح بہت زیادہ ہے اور 2005 کے خوفناک زلزلے سے 55ہزار افراد معذور ی کا شکار ہو ئے جن میں 332وہ خواتین و حضرات ہیں جو ریڑھ کی ہڈی سے متاثر ہوئے اور ہمیشہ کےلئے وہیل چیئر پر آگئے ہیں۔ یاد رہے پچھلے سال میڈم نسرین عزیز وفات پا گئی ہیں اللہ مغفرت فرمائے انہوں نے مجھے بتایا کہ اکثر معزور افراد بھی ازدواجی زندگی بسر گزارنے کے قابل ہیں لیکن ان سے کوئی شادی نہیں کرنا چاہتا ۔معذور افراد میں جسمانی معذور افراد،گونگے بہرےاور نابینا افراد کی بڑی تعداد ہے اور ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ معاشرے میں شعور کی کمی ہے NGO’sاور یو این ایجنسی ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر رہی ہے ۔ حکومت کے پاس ان افراد کےلئے فنڈز ہی نہیں ہیں،ہمارے مطالبات ہیں کہ1-مردم شماری میں معذور افراد کا ڈیٹا الگ کیا جائے۔2-ان افراد کےلئے صحت اور تعلیم وترتیب فری جائے ۔ 3 مکمل طور پر جسمانی معذور افراد کےلئے زکواة و اوقاف سے وظیفہ مقرر کیا جائے۔4نوجوان خواتین وحضرات کو بلا سود قرضے دینے جاہیں اور 2فیصد کوٹہ میں ملازمت دی جائے تاکہ یہ خودکفیل ہو سکیں۔تمام سرکاری و نجی عمارتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ معذور افراد کےلئے راستہ ضرور رکھیں۔5-ہموار جگہ پر رہنے کی سہولت دی جائے ۔ چھ فری ایمبولینس سروس دی جائے۔7- حکومت کو ان معذور افراد کےلئے ادارے بنانے چاہئیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا فرمایا اور عقل و دانش سے نوازا اور فرشتوں پر علم و حکمت کی خوبی کی بدولت فضیلت عطا کی۔آخر میں اتنا عرض ہے کہ دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی جو تعلیم وترتیب سے آراستہ ہوئیں اور معاشرے کے تمام طبقات کو فعال بناکر قومی تعمیر وترقی میں شامل کیا۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم معذور افراد کے ایک بڑے طبقے کو بے کار سمجھ کر مکمل طور پر نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔