21 مئی چائے کا عالمی دن ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں چائے کے کاشتکاروں، مزدوروں، سپلائرز اور اس سے جڑی معیشت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ چائے نہ صرف دنیا کا مقبول ترین مشروب ہے بلکہ کروڑوں افراد کی روزی کا ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان میں بھی چائے کی مقبولیت روز بہ روز بڑھ رہی ہے، مگر اس عالمی دن پر ہمیں خود سے ایک سوال ضرور کرنا چاہیے: کیا ہم صرف چائے پینے والے بنے رہیں گے یا خود اسے اُگا کر خودکفالت کی طرف بھی بڑھیں گے؟چا ئے نہ صرف ایک مشروب ہے بلکہ ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ یہ سردیوں کی ٹھنڈی شاموں میں گرمی اور سکون کا باعث بنتی ہے اور دوستوں اور خاندان کے ساتھ محبت بھری بات چیت کے لمحے تخلیق کرتی ہے۔ چائے پینے سے ذہن تازہ ہوتا ہے، جسمانی تھکن دور ہوتی ہے اور توانائی ملتی ہے۔ اس کی خوشبو اور ذائقہ انسانی جذبات کو خوشگوار بنا کر ایک خاص احساس دلاتا ہے۔ چائے ایک ایسا مشروب ہے جو روزمرہ کی مصروفیات میں ایک وقفہ فراہم کرتا ہے، جہاں لوگ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی آرام بھی حاصل کرتے ہیں۔ کبھی یہ اکیلے پن کا مداوا بنتی ہے اور کبھی گہرے تعلقات کی بنیاد، اسی لیے ہر ثقافت میں چائے کو خاص مقام حاصل ہے۔ادبی لحاظ سے بھی چائے کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی محفلوں میں چائے ہمیشہ گفتگو اور تخلیق کی تحریک رہی ہے۔ چائے کی پیالی کے گرد بیٹھ کر تخلیق کار اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور نئی تخلیقات جنم لیتی ہیں، جو ادب کی دنیا کو رنگین اور زندہ بناتی ہیں۔ ادب میں چائے کو اکثر تنہائی، محبت یا زندگی کے فلسفے کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ چائے کے گرد محفلیں اور باتیں جاری رہتی ہیں، جو نہ صرف ادب بلکہ انسانی رشتوں اور تخلیقی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے چاءکی اہمیت صرف ایک مشروب تک محدود نہیں بلکہ یہ ہماری ثقافت اور احساسات کا آئینہ بھی ہے۔چائے کی کاشت کا قضیہ پاکستان میں عرصے سے زیرِ بحث ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں چائے کی کاشت کے لیے موزوں خطے — خصوصاً وادی سوات، مانسہرہ، بٹگرام، ایبٹ آباد، ہری پور، بفہ اور کشمیر کے کچھ حصے — موجود ہیں، جہاں زمین اور آب و ہوا سری لنکا، بھارت اور چین جیسے چائے پیدا کرنے والے ممالک سے مشابہ ہے۔چائے کی کاشت کا پہلا قابلِ ذکر تجربہ بفہ، مانسہرہ کے مقام پر کیا گیا، جہاں رستم خان ایڈووکیٹ نے اس خواب کی بنیاد رکھی۔ اس منصوبے کو چینی حکومت کا تعاون بھی حاصل رہا۔ اس کے بعد شنکیاری (مانسہرہ) میں قائم ہونےوالا نیشنل ٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے قائم کیا گیا، جس نے تحقیقی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔بدقسمتی سے ریاستی غفلت، پالیسی کی عدم تسلسل اور سرمایہ کاری کے فقدان نے اس شعبے کو زبوں حالی میں مبتلا رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ بین الاقوامی مفادات اور تجارتی مافیا بھی غیر محسوس انداز میں پاکستان کو چائے کی مقامی پیداوار سے دور رکھنے میں ملوث رہے، تاکہ ہمارا انحصار درآمدی چائے پر قائم رہے اور ہم سالانہ اربوں روپے زرمبادلہ کی صورت میں کھوتے رہیں۔پاکستان ٹی بورڈ کی ماضی کی رپورٹس کے مطابق اگر صرف 2 ہزار ایکڑ پر بھی چائے کاشت شروع کر دی جائے، تو آئندہ چند سالوں میں ملک میں مقامی سطح پر چائے کی طلب کا خاطر خواہ حصہ پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف زرِ مبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ مقامی کاشتکاروں کو بھی معاشی فائدہ ہوگا۔ چائے صرف ایک مشروب نہیں بلکہ تہذیبی پہچان، فکری نشستوں کا رفیق اور ادب و ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ برصغیر کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کی محفلیں اکثر ایک کپ چائے سے آباد رہیں ۔ ریختہ سے فیض تک، منٹو سے انتظار حسین تک چائے نے تخلیقی گفتگو کو جلا بخشی۔ ہمارے دیہات کی چوپال ہو یا شہر کی لائبریری، کالج کی کینٹین ہو یا دانشوروں کی بیٹھک — چائے کا ایک کپ صرف پیاس نہیں بجھاتا بلکہ مکالمے کا دروازہ کھولتا ہے۔ یوں چائے ہماری سماجی زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہے جو ثقافتی شناخت، مہمان نوازی، اور فکری آزادی کی علامت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم چائے سے اتنی محبت رکھتے ہیں تو اسے زمین سے اگانے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ پینے کے ساتھ ساتھ اُگانا بھی سیکھیں تاکہ ہماری محبت، ہماری معیشت کا سہارا بن سکے۔