پاکستان میں نظم ریاست کے لیے ایک حکومت ضرور رکھی جاتی ہے۔ایسی ہر حکومت کا سربراہ وزیرِ اعظم کہلاتا ہے۔ان میں سے جو وزیراعظم بھی ؛ اپنے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل کو سنجیدہ سمجھنا شروع کردے اسے حرف غلط کی طرح سے مٹا دینے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے۔پھر بھلے وہ مرزا غالب کا یہ شعر گلیوں گلیوں اکتارے پر گنگناتا پھرے کہ؛
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
یہاں نکالے گئے وزیراعظم کی فریاد نہ کوئی سنتا ہے ،نہ جواب دیتا ہے۔ ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کسی بھی وزیراعظم کو اڑھائی تین سال سے زیادہ برداشت نہیں کر پاتی۔اپنی اس تحقیق کی بنیاد پر وہ تجویز پیش کرتا ہے کہ پاکستان میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کی مدت کار پانچ سال سے کم کرکے دو سال کر دینی چاہیے۔اسی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر بیس سال کر دینی چاہئے ۔وہ کہتا ہے کہ اس کے کئی فایدے ہوں گے۔پہلا بڑا فایدہ تو یہ ہو گا کہ ہر پانچ سال بعد الیکشنز کے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی۔اور قوم یک سو ہوکر ملکی ترقی میں مصروف ہو سکے گی۔اسمبلیوں کی بیس سالہ مدت کے دوران جو اراکین وفات پا جائیں گے ،ان کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کے ذریعے نئے رکن اسمبلی کا انتخاب کر لیا جائے گا۔رفتہ رفتہ ملک عزیز میں ازکار رفتہ سیاستدانوں کی جگہ نوجوان اراکین اسمبلی کا انتخاب رواج پا جائے گا۔ایسی اسمبلیوں کا ہر پانچ سال بعد کم از کم ایک اجلاس بلانا لازم ہوا کرے گا ۔ہر دو سال بعد اسی بیس سالہ قومی اسمبلی میں سے نیا قاید ایوان منتخب کر لیا جایا کرے گا ۔اور پھر دریائے راوی چین ہی چین لکھے گا۔اب ستم ظریف کی ان تجاویز کو یہیں سمیٹ لپیٹ لیا جائے تو بہتر ہے ،ورنہ یہ مزاحیہ بلکہ مضحکہ خیز تجاویز کسی کے کان میں پڑ گئیں تو وہ سنجیدہ ہی نہ ہو جائے؟ کیا پتہ۔آج کل پاکستان ایک ایسے وزیراعظم کے تجربے سے گزر رہا ہے ،جسے ، اسکے طریقہ واردات کے حوالے سے اشتہاری وزیراعظم (اشتہارات والا)کہنا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے ۔ اشتہاری ہونے کا تعلق انکا خاموش خدمت اور کارکردگی کی بجائے اخبارات سے لے کر سڑکوں کنارے لگے عارضی اشتہارات اور پینافلیکس پر اپنی ادھ کھلے منہ والی تصویروں پر انحصار کرنے سے ہے۔وہ لیپ ٹاپ اسکیم کے اخباری اشتہارات ہوں یا کسی پل یا انڈر پاس حتی کے منہ کے بائیں طرف والے ٹوٹے دانتوں کے علاج کا معاملہ ہو، پوسٹر اور دیو ہیکل پینافلیکس ،سب پر شادی کارڈ کی طرح بنا سنوار کر وزیراعظم کا نام مع تصویر چپکا کر بے طرح تشہیر کی جاتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کسی مقدمے میں جج صاحب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی پر ہمیں کوئی اعتبار نہیں، بہاالدین زکریا یونیورسٹی نے اس معاملے کو خراب کیا۔بس یہ سننا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بقول شرلی بے بنیاد ،کاغذ پر بی زیڈ یو لکھ کر ،اس کاغذ کو تین بار چوما اور پھر ایک روزہ دورے پر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جا پہنچے ۔ یونیورسٹی میں دیگر ملکوں سے خریدے گئے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران ٹشو پیپر سے آنکھ کا کونا صاف کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ ہم ماہ اگست 2023 میں اقتدار نگراں حکومت کے سپرد کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 15 ماہ میں ہم نے چار سال کی بربادیوں کا ملبہ صاف کیا۔ انہوں نے طالب علموں کو بتایا کہ ہم نے پاکستان کے مفادات کی راہ میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں بھی صاف کی ہیں ۔یہ بتانے کے بعد ہمارے دردمند وزیراعظم نے یہ بتا کر ہجوم میں حیرت کا پانی چھوڑ دیا کہ؛ اب ہمارے سامنے آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کشکول توڑ دیا جائے ، ہم مقروض رہنا چھوڑ دیں ، محتاجی کی زنجیریں توڑ دیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔وزیر اعظم کی پرعزم باتیں سن کر ہجوم میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہونے ہی والا تھا کہ انہوں نے یہ کہہ کر سب کو اداس اور پریشان کر دیا کہ کشکول توڑنے ، قرض نہ لینے،محتاجی کی زنجیریں توڑنے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے عمل کا ہراول دستہ عوام کو بننا ہو گا۔ گویا ہماری ہمہ اقسام حکمران اشرافیہ کشکول توڑ مہم کا اب بھی حصہ نہیں بنے گی اور حسب دستور ملنے والے قرضوں کو خود اپنی مراعات و ضروریات پر ہی خرچ کرتی رہے گی۔وزیر اعظم نے نوجوان طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف بتا دیا کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کی کنجی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے ستم ظریف کہتا ہے کہ وزیراعظم کی مراد یہ تھی کہ ملکی ترقی اور خوشحالی کےلئے حکومت سے توقعات وابستہ نہ کی جائیں ۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا، وزیراعظم شہباز شریف نے بی زیڈ یو کے طلبہ کو یہ خبر بھی سنا دی ہے کہ آئندہ حکومت ملی تو ایک لاکھ نہیں ،50 لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کروں گا۔ گویا انہوں نے بڑی دانشمندانہ طراری کے ساتھ لیپ ٹاپ مینوفیکچرنگ کی غیر ملکی کمپنیوں کو ایک بڑے بزنس آرڈر کا امکان دکھا کر پیشگی ثواب دارین حاصل کرلیا ہے یہ نقد ثواب آنے والی انتخابی مہم میں کام آئے گا۔ایسی کاروباری دانش پاکستان میں کم کم نظر آتی ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کی چالاکیوں کا فایدہ لیپ ٹاپ مینوفیکچرر اور کمیشن لینے والوں کو ہوتا ہے۔ اس کی بجائے پالیسی بنا کر کسی بھی تعلیمی ادارے میں رجسٹرڈ طالب علم کےلئے لیپ ٹاپ کی خرید پر ساٹھ فی صد سبسڈی کا اعلان کیا جا سکتا ہے ۔یا پھر ہمت کر کے پاکستان میں مینوفیکچرنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ،یہاں لیپ ٹاپ خود تیار کیے جائیں اور دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ؛ پاکستان کو صارفین کی بے بس منڈی بنانے والے ایجنٹس ہیں یہ لوگ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بہاالدین زکریا یونیورسٹی والوں سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ؛آخر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کی پردہ پوشی کیوں کی جاتی ہے؟ آخر اسی یونیورسٹی اور اس کے مشکوک ملحقہ کالجوں کے طالب علم ناجائز فیسوں اور غیر مختتم کورسز سے تنگ اس کر خود کشی کیوں کر لیتے ہیں؟ وزیر اعظم کو پوچھنا چاہیئے تھا کہ خطے کی اس جلیل القدر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار عدالت عظمیٰ نے معطل کیوں کر رکھے ہیں ؟ ۔وزیر اعظم کو بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایکٹنگ وائس چانسلر سے تنہائی میں مل کر وہ اسم اعظم معلوم کرنا چاہیے تھا ،جس کے مسلسل ورد سے وہ یکے بعد دیگرے مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بنتے چلے جا رہے ہیں ۔ستم ظریف نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کو کیا پتہ کہ شہباز شریف نے کس کس سے کیا کیا باتیں کر رکھی ہیں۔ ہاں مگر ، ستم ظریف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اچھی طرح سے جانتا ہے کہ کس سے بات کرنی ہے اور کس سے نہیں کرنی یہی دیکھ لیں ، ن لیگ بزعم خود لاہور کو اپنا محبوب اور ملکیت حلقہ انتخاب خیال کرتی ہے ۔ لیکن جولائی کی تپتی گرمی میں لاہور کی بے مروت سڑکوں پر پنجاب بھر کے ملازمین اور اساتذہ احتجاج کر رہے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف اگر اصل لیڈر ہوتے تو وہ لاہور جا کر احتجاج کرنےوالے اساتذہ و دیگر ملازمین کے احتجاجی کیمپ میں بیٹھ جاتے ، اظہار یکجہتی کرتے،پھر ریڈیو کے کسی ناکام ڈرامہ نویس کی لکھی جذباتی تقریر پڑھتے اور میلہ لوٹ لیتے لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ؛ پنجاب کے سرکاری ملازمین کےساتھ کی گئی واردات مکمل اتفاق رائے سے کی گئی تھی۔گویا ن لیگ کی طرف سے پنجاب کی نگران حکومت کے کندھے پر رکھ کر وہ بندوق چلانے کی کوشش کی گئی کہ جسے چلاتے ہوئے ان کا اپنا ہیٹ گر سکتا تھا۔
کالم
پاکستان کا اشتہاری وزیراعظم
- by web desk
- جولائی 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 572 Views
- 2 سال ago
