کالم

پاکستان یا مسائلستان

سابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اب سمجھنے والے سمجھ جائیں کہ آنے والے دنوں میں ہم کہاں کھڑے ہونگے اور ہمارا معاشی مستقبل کیا ہوگا انکا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نہیں آیا تو ہم ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے جبکہ سب سے زیادہ مہنگائی پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی ہم نے این ایف سی ایوارڈ پاس کرایا ہوا ہے جس کی وجہ سے بار بار پھنستے ہیں وفاق کے57.5 فیصد پیسے صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں اس سال 75 سو ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے جس میں سے 4300 ارب صوبوں کو دے دیں گے وفاق کے پاس تو 3200 ارب روپے آئے جبکہ سودی قرضہ 4 ہزار ارب روپے ادا کرنا ہے اوپر سے ہماری انڈسٹری بند ہوتی جارہی ہے اور پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ڈیفالٹ کر جانے کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا گیاکیونکہ سپلائی چین میں تعطل، توانائی کی قلت، پلانٹ مشینری، پرزہ جات کی درآمدات میں مشکلات نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بحران سے دوچار کررکھا ہے ٹیکسٹائل کی صنعت 50فیصد پیداواری گنجائش پر کام کررہی ہے آئندہ ماہ سے ٹیکسٹائل کی ماہانہ برآمدات ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ بھی حکمرانوں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے ایک طرف مالی سال 2021-22 کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرح نمو اہداف سے کم ہونے کے باعث ملک بھر میں مہنگائی میں 20فیصد تک اضافہ ہوگا جبکہ دوسری طرف سیاسی انتشار کے باعث ڈالر مہنگا اور اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ داروں کے 58ارب ڈوب چکے ہیں حالیہ سیلاب سے کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی اور ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کوکام جاری رکھنے کےلئے ایک کروڑ40لاکھ کپاس کی گانٹھیں درکار ہیں اور اس وقت صرف50لاکھ گانٹھیں دستیاب ہیں روپے کی قدر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 60فیصد تک کمی کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے سندھ کی صنعتوں کے مقابلے میں پنجاب کی صنعتوں کو مہنگی آر ایل این جی دی جارہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب کی صنعتوں کے لیے مسابقت دشوار ہوگئی ہے نئے آر ایل این جی کنکشنز بھی نہیں دیے جارہے اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی کی فراہمی میں بھی تعطل کا سامنا ہے مینٹی نینس کے نا م پر مہینے میں پانچ سے چھ روز بجلی بند کردی جاتی ہے جس سے بجلی پر چلنے والی صنعتوں کی پیداواری گنجائش 25فیصد تک کم ہوچکی ہے سندھ کے مقابلے میں پنجاب کی ٹیکسٹائل ملوں کو مہنگی بجلی بھی مل رہی ہے جبکہاپٹما نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئے یونٹس لگنے اور توسیعی منصوبوں کے رک جانے کو بھی صنعت اور پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا یہی وجہ ہے ایکسپورٹ انڈسٹری بہت زیادہ دباﺅ کا شکار ہے اور اسے قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے برآمدی یونٹس کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے یہ صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ کی گنجائش کو کم کرنے کے ساتھ بینکوں کے لیے بھی بحران کا سبب بن سکتی ہے حکمران محض ڈنگ ٹپاﺅ اقدامات کرکے وقت گزار رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت میں شامل کسی ایک کو بھی عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں اور قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کوحکمرانوں نے عملاً مسائلستان بنادیا ہے تما م اسٹیک ہولڈز کو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے غیر متزلزل سیاسی بصیرت سے کام لینا ہوگا حالات پر قابو پانا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں اس کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری کا فارمولہ سب سے بہتر ہوگا کیونکہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اس وقت پاکستان کو بانی پاکستان کے افکار کی روشنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا کیونکہ آج دنیا میں ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں لوٹ مار اور کرپشن نے ہمیں دنیا کے سامنے بھیک مانگنے پرمجبور کردیا ہے المیہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ملک و قوم کو اس نہج پر پہنچایا ہے وہی آج وفاق اور صوبوںمیں حکومت کررہے ہیں ایک اور بات کہ پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانا عالمی اداروں اوردوست ممالک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری رہنماﺅں کی ذمہ داری ہے اور ہم نے یہ سب کچھ آئی ایم ایف پر چھوڑ رکھا ہے جب تک آئی ایم ایف کی بات نہیں مانی جاتی وہ قرضہ نہیں دے گا اور ہمیں تو اپنے دفاعی اخراجات کے لئے بھی قرضے لینا پڑ رہے ہیں 1970 میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 3.5 ارب ڈالر تھا جو 2004میں 33 ارب ڈالر تک جا پہنچا اوراب غیر ذمہ دارانہ اخراجات کی وجہ سے 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اب نئے قرضے لئے بغیر پرانے قرضوں کی ادائیگی ناممکن ہو گئی ہے پچھلی حکومتوں نے اپنے فائدے اورسیاسی شہرت کے لئے بھاری قرضے لئے جس سے ملک معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہو گیا ہے اور اسکا اثر براہ راست عوام پر پڑا اس وقت20 کلو آٹے کا تھیلہ 2500 روپے میں فروخت ہورہا ہے جو غریب عوام کے ساتھ سراسرظلم ہے معیشت کی بدحالی کی وجہ سے مہنگائی کے جن نے عوام کاجینا دوبھر کردیا ہے تو دوسری جانب اشیائے خورونوش خصوصاً آٹا خریدنا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لگاکر لیاتھااور 65روپے کلو آٹا فروخت ہونے والا آج ان کے دور میں130روپے تک میں فروخت ہورہا ہے عام آدمی دودھ،چینی،گھی اور اب آٹا بھی خرید نے کیلئے پریشان ہے بیروزگاری کی وجہ سے لوگ اپنے لخت جگر بیچنے پر مجبور ہیں لیکن حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اسلام آباد کے بعد لاہور میں ممبران کی خریدوفروخت کرنے میں مصروف ہیں بے حس حکمران کہتے رہے کہ کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا یا آٹا مہنگا ہے تو لوگ کیک کھائیں مہنگائی مکاﺅ مارچ کرنے والوں نے عوام کی دال روٹی بھی چھین لی ہے مہنگائی اورسیلاب کی وجہ سے کروڑوں لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ سمیت کوئی نوٹس لینے کیلئے تیار نہیں اگردیکھا جائے توعوام پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اگر عوام کو زندہ رکھنا ہے تو پھر فوری طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 60 فیصدکمی کی جائے اس کے لیے حکمرانوں کے محلات کو ہی نیلام کیوں نہ کرنا پڑیں ورنہ بھوک اوربدحالی کے ستائے ہوئے لوگ سڑکوں پرنکل آئے تو پھر کوئی محل سلامت رہے گا اور نہ محلات والے اور وہ اس خوش فہمی میں بھی نہ رہیں کہ وہ بھاگ جائیں گے انکے اردگرد والے ہی انکا راستہ روک لیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri