کالم

پاک بھارت تناﺅ پر ایک نظر!

جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ میدانوں میں توپوں کی گھن گرج سے پہلے بسا اوقات لفظوں کے تیروں سے حملے ہوتے ہیں۔ جب افواج صف آراءہوتی ہیں، تب بھی کہیں نہ کہیں قلمکار اپنی بستیاں سنوارتے، خوابوں کو بچاتے اور آنے والی نسلوں کےلئے فہم و تدبر کے چراغ جلاتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں فیض احمد فیض کی نظمیں جنگی نعرہ نہیں بلکہ امن کا پرچم بن جاتی ہیں، حبیب جالب کا احتجاج بندوقوں سے زیادہ گونجتا ہے، اور احمد ندیم قاسمی کا کرب انسانی وقار کو زندہ رکھتا ہے۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی بھی لفظی گولہ باری سے بھرپور ہے۔ منور رانا نے شاید اسی سیاسی ماحول کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا:
“سرحد پہ کشیدگی ہے تو الیکشن قریب ہے
اخبار یہ خبر جو نہ دے، وہ ادھورا ہے”
یہ شعر موجودہ فضا کی اصل جھلک پیش کرتا ہے، جہاں دونوں ممالک کی اشرافیہ کو وقتی فائدے اور عوام کو دائمی نقصان ہوتا ہے۔ برصغیر ایک بار پھر لفظی گولہ باری کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، جعفر ایکسپریس حملے اور اس کے فوراً بعد پہلگام واقعے نے دونوں اطراف کے بیانیوں کو مزید تیز کر دیا ہے۔ بھارت نے حسبِ روایت بغیر کسی تحقیق کے پہلگام واقعے کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا، جب کہ سندھ طاس معاہدے سے دستبرداری کی دھمکیاں دے کر پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو ایک سیاسی ہتھیار بنا دیا۔ایسے میں پاکستانی قوم کو سب سے پہلے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاسی قیادت بالخصوص وزیراعظم نواز شریف، صدرِ مملکت اور دیگر ذمہ دار اپوزیشن اور سیاسی پارٹی سربراہان اور شخصیات کو واضح اور دوٹوک انداز میں ان الزامات کی مذمت کرنی چاہیے اور ایک پیج پہ ہونا چائیے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف الزامات اور پانی بند کرنے کی کوشش کو عالمی سطح پر چیلنج کیا جانا چاہیے تاکہ یہ تاثر مضبوط ہو پاکستان امن چاہتا ہے، کمزوری نہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگی ماحول خاص کر الیکشن کے دنوں میں بھارت کی ضرورت بھی ہے اور جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آتے جاتے ہیں وہاں کے میڈیا کو جنگی اور جذباتی ماحول بنانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے ۔منور رانا کا ہی کے ایک شعر کا مصرعہ اس سچائی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے:”بارود کے بدلے ووٹ ملیں، یہ سرحد کی نفسیات ہوئی”یہی کچھ آج بھارت میں ہو رہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے، اور ”دشمن” تراشی سیاسی ایجنڈا بن چکی ہے اور بھارتی میڈیا سرگرم ہے۔ اور پاکستان کی طرف سے بھی بھر پور جواب دیا جا رہا ہے ، گویا یہ لفظی جنگ دراصل دونوں طرف کی اشرافیہ کو فائدہ دینے والا ہتھیار بن چکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جنگ ہو یا کشیدگی، نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔ نہ بھارتی کسان کو اس سے غلہ ملے گا، نہ پاکستانی مزدور کا چولہا چلے گا۔ اصل فائدہ ان طبقات کو ہوتا ہے جو بیرونِ ملک بینک اکا¶نٹس اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ اس لیے قلم کو خاموش رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ۔ چونکہ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے اس لیئے میڈیا پہ جنگی ماحول کا غلغلہ ہے۔ کیا حقیقت اور کیا افواہ اس کا تعین مشکل ہو رہا ہے۔پاکستانی وزیر دفاع کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے دہشت گردی کے کچھ پہلو¶ں میں پچھلی پالیسیوں کی کمزوریوں کا اعتراف کیا، عالمی سطح پر تنقید اور بھارتی پروپیگنڈے کا نشانہ بن گیا۔ بھارت نے اسے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف بطور ثبوت پیش کیا، حالانکہ اس بیان کا سیاق و سباق داخلی اصلاح کی طرف اشارہ تھا، نہ کہ الزام کے اعتراف مگر یہ سچ بولنے کا بھی یہ وقت اور موقع نہیں تھا۔اسی دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا کہ پاکستان دفاع کےلئے تیار ہے لیکن جنگ کا خواہاں نہیں۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے جنگی ماحول بنانے کی کوشش کو بے نقاب کیا۔ دوسری طرف چین کی جانب سے لداخ میں فوجی نقل و حرکت اور پاکستان کے ساتھ بعض دفاعی ٹیکنالوجی کے تبادلوں نے بھارت کو مزید مشتعل کر دیا ہے چونکہ چائنا کے اپنے مفادات ہیں اور ظاہر دنیا کے ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہیں پاکستان اور چائنا کے آپس کے معاہدات ہیں اور اگر کہیں پاکستان کے مفادات کو نقصان ہوگا تو اس کاا اثر چائنا پر بھی پر بھی پڑے گا اس لئیے اگر برصغیر میں جنگی ماحول ہوگا تو چائنا اپنا کردار ادا کریگا۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے میں پاکستان نے کھلے الفاظ میں بھارت کو ملوث قرار دیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت خاص کر اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بلوچستان میں سرگرم ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کا الزام واقعہ کے فورا بعد بلا تحقیق پاکستان پر دھر دیا گیا جو کہ حقائق کے بر عکس ہے۔ دونوں طرف کی الزام تراشیوں نے خطے میں پہلے سے موجود بے چینی کو مزید ہوا دی ہے۔ مگر اس کے باوجود، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بالآخر بات چیت، معافی تلافی اور سفارت کاری کے راستے ہی کھلتے ہیں اور دونوں ممالک جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ لفظی گولہ باری خوب ہوگی اور ماحول بنانے کیلئے سرحدوں پر کشیدگی بر قرار ہوگی۔اگر بھارت سندھ طاس معاہدے کو توڑتا ہے یا غیرقانونی طور پر پانی روکتا ہے تو پاکستان کو شدید زرعی، معاشی و ماحولیاتی نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم،بھارت مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتا کیونکہ عالمی قوانین، ورلڈ بینک کی ثالثی، اور بین الاقوامی دبا¶ اسے مکمل طور پر ایسا کرنے سے روکنے والے عوامل ہیں۔بھر حال یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کو ہر محاذ پر قومی بیانیے میں یکسوئی اور قومی وحدت کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں لیکن امن کی خواہش ہماری کمزوری نہیں۔ ہم جنگ کی نہیں، مکالمے کی زبان بولتے ہیں۔ اس دوران اہل قلم کو بھی قلم کو مثبت استعمال کرنا ہوگا،ادب، صحافت، مکالمہ اور دانش آج کے سب سے م¶ثر ہتھیار ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب توپ خاموش ہوتی ہے، قلم کی گونج باقی رہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے