تحریر !ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 2دسمبر کو یو اے ای کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ کراچی میں یو اے ای کے قونصل جنرل بخیت عتیق الرومیتی میرے دیرینہ دوست اور قونصلیٹ میں گزشتہ 24سال سے تعینات ہیں جو ترقی کرکے آج کراچی میں یو اے ای کے قونصل جنرل بنے ہیں۔ اس سال یو اے ای کے قومی دن کو دو ہفتے پہلے سے منانا شروع کیا گیا تھا اور کئی تقاریب میں، میں نے بھی شرکت کی جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے پاکستان یو اے ای تعلقات پر ایک سیمینار منعقد کیا جس میں مجھے پاک یو اے ای بزنس کونسل کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ میرے ساتھ پاکستان میں یو اے ای کے سفیر ابراہیم سلیم الزیبی اور فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام شیخ جو تقریب میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر اسلام آباد سے آئے تھے، کے علاوہ کراچی میں یو اے ای کے قونصل جنرل بخیت عتیق الرومیتی نے بھی شرکت کی۔ میں نے اپنی تقریر میں شرکا کو بتایا کہ میرا یو اے ای سے 47سال پرانا تعلق ہے۔ 1977 میں یو بی ایل بینک چھوڑ کر میں نے دبئی کے مڈل ایسٹ بینک کو جوائن کیا اور 5سال بعد 1982 میں اپنے بھائی اشتیاق بیگ کے ساتھ اپنا بزنس شروع کیا۔ اللہ تعالی نے بہت ترقی دی اور بزنس دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلتا گیا اور ہمارے لئے دبئی Land of Opportunities ثابت ہوا۔ 1993 میں ہم نے اپنی کمائی ہوئی دولت سے پاکستان کی مختلف صنعتوں میں سرمایہ کاری کی اور والدہ کی دعائوں سے اللہ تعالی نے ترقی سے نوازا۔
1977 میں دبئی صرف Sun & Sand تھا لیکن آج دنیا کا ترقی یافتہ شہر ہے جس میں سب سے زیادہ فائیو اسٹار ہوٹلز، برج خلیفہ سمیت بلند ترین عمارتوں ،سیاحت اور عیش و آرام، عظیم تعمیراتی منصوبوں اور ایکسپوز کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے جسکا کریڈٹ یو اے ای کے موجودہ حکمرانوں صدر محمد بن زید النیہان اور وزیراعظم محمد بن راشد المکتوم کو جاتا ہے۔ 1970-72 میں 7ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جس میں دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمہ اور فجیرہ شامل ہیں۔ ان میں دبئی سب سے زیادہ 3.8 ملین آبادی والا شہر ہے۔ دوسرے نمبر پر ابوظہبی 2.5ملین اور تیسرے نمبر پر شارجہ 1.8 ملین شامل ہیں۔ 1994 میں شیخ زید بن سلطان النہیان اور دبئی کے اس وقت کے حاکم شیخ راشد بن سعید المکتوم نے تیل کی آمدنی کو دبئی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے استعمال کیا، دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور جبل علی جیسی جدید پورٹس اور ٹرمینلز قائم کئے گئے اور ڈیوٹی ٹیکس فری پالیسی نے یو اے ای کو دنیا کا تجارتی اور سیاحتی مرکز بنادیا۔ دبئی میں اس وقت 1.8 ملین پاکستانی مقیم ہیں جو سالانہ 5.7ارب ڈالر ترسیلات پاکستان بھیجتے ہیں۔ یو اے ای نے گزشتہ دو دہائیوں میں 10 ارب ڈالر سے زائد ٹیلی کمیونی کیشن، بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، ایئر لائنز، آئل ریفائنری اور پورٹس سیکٹرز میں سرمایہ کاری کی جس میں بینک الفلاح، یو بی ایل، دبئی انویسٹمنٹ بینک، ابوظہبی پورٹس اور پی ٹی سی ایل شامل ہیں۔ حال ہی میں میری ملاقات ابوظہبی پورٹ گروپ کے CEO خرم عزیز خان سے ہوئی جنہوں نے پاکستانی پورٹس میں نئی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کے بارے میں بتایا جس سے کراچی اور پورٹ قاسم خطے کی مصروف ترین بندرگاہیں بن جائیں گی۔ حال ہی میں پاکستان نے سعودی عرب اور یو اے ای کیساتھ سرمایہ کاری معاہدہ کیا ہے جسکے بعد پاکستان اور خلیج تعاون کونسل (GCC) جس میں سعودی عرب، یو اے ای، قطر، عمان، کویت اور بحرین شامل ہیں، کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ ممکن ہوسکے گا۔ 2021-22میں یو اے ای اور پاکستان کی باہمی تجارت 8 ارب ڈالر تھی جو 25 فیصد اضافے سے اب 10.6 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ سعودی عرب کی طرح یو اے ای نے بھی ہمیشہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور حالیہ آئی ایم ایف معاہدے میں یو اے ای نے 2 ارب ڈالر کے سیف ڈپازٹس رول اوور کئے ہیں۔
حال ہی میں دبئی وژن 2030کا اعلان کیا گیا ہے جو ٹیکنالوجی، جدت اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میں میٹاورس، 3D انٹرنیٹ اور جدید ڈیجیٹل ٹولز استعمال کرکے دبئی کو جدید ٹیکنالوجی میں گلوبل لیڈر بنادیگا۔ وژن 2030اسٹارٹ اپس اور SMEs کو بھی سپورٹ کرتا ہے۔ دبئی سیلکون اوویسز (DSO) کو خطے میں نئی ٹیکنالوجی کا ٹیکنیکل حب، دبئی اربن ماسٹر پلان 2040اور دبئی اکنامک ایجنڈا D33مستقبل میں دبئی کو ٹاپ گلوبل سٹی بنانے کے حیرت انگیز منصوبے ہیں۔ دبئی اور یو اے ای کی ترقی سے ہمیں سیکھنا چاہئے۔ یو اے ای کی ترقی میں سب سے اہم امن و امان کی صورتحال ہے۔ قانون کی پاسداری اور سب کیلئے یکساں قانون نے دبئی میں سرمایہ کاری کا پرکشش ماحول پیدا کیا ہے۔ پالیسی کا تسلسل اور رول آف لاسے معاشی ترقی کی ہے جہاں لوگ اپنی سرمایہ کاری محفوظ سمجھتے ہیں اور کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں بھی ترقی کے اس گر کو اپناسکیں۔ یو اے ای کے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں پاکستانیوں کی بڑی محنت شامل ہے۔ ایمریٹس ایئر لائن کی لانچ بھی پاکستان کی مرہون منت ہے تو پھر ہم اپنے ملک کی ترقی کیلئے کیوں سنجیدہ نہیں؟