Site icon Daily Pakistan

پتھر کے زمانے کی سوچ اور حکمرانی کا بحران

پنجاب میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی سہیل آفریدی کی آمد کیا ہوئی گویا بدتمیزی، تعصب اور تنگ نظری کا ایک طوفان برپا ہو گیا اس دورے کے دوران جس انداز کی سیاست جس قسم کی صحافت اور جس نوعیت کے پنجابی و وفاقی حکومتی اقدامات دیکھنے کو ملے وہ نہ صرف افسوسناک ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ ناعاقبت اندیش حکمران اس حقیقت کا ادراک تک نہیں رکھتے کہ پاکستانی معاشرے میں نفرت، تقسیم اور تعصب کے جو بیج دانستہ طور پر بوئے جا رہے ہیں وہ کسی ایک فرد یا جماعت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری فیڈریشن کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طاقت کے تمام مراکز اگرچہ وقتی مفاد کیلئے ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، مگر جب ان میں دانش، فہم اور فراست کی کمی ہو تو اس کا نقصان براہِ راست ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ایسے مناظر دیکھ کر ذہن لاشعوری طور پر پتھر کے زمانے کی طرف چلا جاتا ہے۔ پتھر کا زمانہ انسانی تاریخ کا وہ ابتدائی دور تھا جب انسان نے دھاتوں کے بجائے پتھروں سے بنے اوزار استعمال کیے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسان نے فطرت سے سیکھنا شروع کیا شکار کو ذریعہ معاش بنایا، آگ دریافت کی اور اجتماعی زندگی کی ابتدائی بنیاد رکھی۔تاریخی اعتبار سے پتھر کے زمانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔قدیم پتھر کا زمانہ، جب انسان شکار اور خوراک جمع کرنے پر انحصار کرتا تھا۔درمیانی پتھر کا زمانہ جب اوزار نسبتاً بہتر ہوئے اور طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں آئیں۔نیا پتھر کا زمانہ ، جب زراعت، مویشی پالنا اور مستقل بستیاں وجود میں آئیں اور انسانی تمدن نے ایک بڑی جست لگائی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس زمانے سے آگے نکل آئے ہیں؟اگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو جواب مایوس کن دکھائی دیتا ہے۔ جب دلیل کی جگہ طاقت، برداشت کی جگہ نفرت اور شعور کی جگہ تعصب لے لے تو معاشرہ جدید عمارتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ذہنی طور پر پھر اسی پتھر کے زمانے میں واپس چلا جاتا ہے۔آج سیاست میں شائستگی ناپید، صحافت میں ذمہ داری کمزور اور ریاستی رویوں میں توازن مفقود نظر آتا ہے۔ صوبوں کے درمیان نفرتیں ابھاری جا رہی ہیں، اختلافِ رائے کو غداری اور تنقید کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ وہ رویے ہیں جو کسی بھی ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ افراد، حکومتیں اور حکمران آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم سب گزر جا گے لیکن اس ملک نے قائم رہنا ہے۔ اصل ترقی سڑکوں، پلوں اور عمارتوں میں نہیں بلکہ سوچ، برداشت، انصاف اور باہمی احترام میں پوشیدہ ہے۔ جب تک ہم بطور قوم یہ بات نہیں سمجھیں گے تب تک ہر نیا دور ہمارے لیے ایک نئے نام کے ساتھ وہی پرانا پتھر کا زمانہ ہی ثابت ہوتا رہے گا۔

Exit mobile version