کبھی کبھی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کے جانے سے صرف ایک انسان نہیں جاتا، ایک عہد ختم ہو جاتا ہے۔ ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جو بیک وقت علم و عمل، کردار و گفتار، تقوی و طہارت، اور عقل و شعور کی روشن مثال ہوتی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد بھی انہی چراغوں میں سے ایک تھے، جو بجھ گیا، مگر اپنی روشنی ہمارے ذہنوں اور دلوں میں چھوڑ گیا۔پروفیسر صاحب کا دنیا سے اٹھ جانا صرف ان کے عزیز و اقارب، یا جماعت اسلامی کا صدمہ نہیں ہے، یہ پوری امت مسلمہ کا نقصان ہے۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جسے پر کرنا ممکن نہیں، کیونکہ وہ ایک نظریاتی انسان تھے، وہ محض ایک اسکالر یا پروفیسر نہیں، ایک تحریک تھے، ایک سوچ تھے، ایک بصیرت افروز کردار تھے۔ پروفیسر خورشید احمد مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے رفیقِ کار تھے۔ وہ ان چند خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہوں نے مولانا مودودی کی فکر کو نہ صرف سنا، سمجھا بلکہ اپنی عملی زندگی میں اسے اپنایا، اسے فروغ دیا اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھایا۔ مولانا مودودی کی طرح پروفیسر صاحب بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اسلام صرف مسجد کے محراب و منبر تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد، خاندان، معیشت، سیاست، اور بین الاقوامی تعلقات تک محیط ہے۔پروفیسر صاحب نے اسلامی معیشت کے میدان میں جو کام کیا، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ وہ اسلامی معاشیات کے بانیوں میں سے تھے، جنہوں نے سرمایہ داری اور سوشلسٹ نظاموں کے مقابلے میں ایک متبادل، اخلاقی، انسانی اور خدائی اصولوں پر مبنی نظام معیشت پیش کیا۔ ان کی کتابیں، لیکچرز، اور کانفرنسز دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہیں۔ وہ ایک علمی اثاثہ تھے، جن کے وجود سے کتب خانوں میں نہیں بلکہ دلوں میں روشنی تھی۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم نے اس نابغہ روزگار شخصیت سے بھرپور فائدہ نہ اٹھایا؟ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں، ایک ایسا فرد موجود تھا جو اسلامی فلاحی ریاست کا عملی نقشہ پیش کر سکتا تھا، مگر ہم نے ان کی بصیرت، تجربے، اور رہنمائی کو نظرانداز کیا۔ ہم نے صرف تقریروں میں ریاستِ مدینہ کا ذکر کیا، لیکن پروفیسر صاحب کی فکر کو قومی پالیسی کا حصہ نہ بنا سکے۔یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ آج جب وہ ہم میں نہیں رہے، ہم ان کے جانے کا غم منا رہے ہیں، مگر جب وہ ہمارے درمیان تھے، ہم نے ان کے علم، ان کے وژن، ان کے جذبے کو وہ مقام نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ ہماری اجتماعی غفلت ہے، اور اس پر ہمیں نہ صرف رونا چاہیے، بلکہ آئندہ کے لیے کچھ سیکھنا بھی چاہیے۔میں دل کی گہرائیوں سے اپنے محترم امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن، سابق امیر سراج الحق، اپنے پرانے دوست فرید احمد پراچہ اور لیاقت بلوچ صاحب سے تعزیت کرتا ہوں۔ ان کے لیے یہ ذاتی صدمہ بھی ہے اور جماعتی خلا بھی، کیونکہ پروفیسر صاحب جیسی رہنما شخصیات محض قائد نہیں ہوتیں، وہ کارواں کی سمت کا تعین کرتی ہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم ان کی زندگی کو ایک سبق کی صورت میں اپنائیں۔ ان کی تحریروں کو پڑھا جائے، ان کے لیکچرز کو سنا جائے، اور ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ ان کے خوابوں کی تعبیر یہی ہوگی کہ ہم اسلامی معیشت، اسلامی سیاست، اور اسلامی معاشرت کے ان اصولوں کو اپنی زندگیوں میں اتاریں جن کی تبلیغ انہوں نے پوری زندگی کی۔آج وہ ہم میں نہیں، لیکن ان کی فکر، ان کا مشن، اور ان کی میراث ہمارے درمیان ہے۔ وہ ہمیں چھوڑ گئے، مگر ایک سوال چھوڑ گئے: کیا ہم ان کے مشن کو زندہ رکھ سکیں گے؟ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت پروفیسر خورشید احمد صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، انہیں جنت الفردوس میں مولانا مودودی، حکیم الامت اقبال، اور دیگر صالحین کے ساتھ جگہ دے، اور ہمیں ان کے مشن کو سمجھنے، اپنانے اور آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ پاکستان تحریک انصاف آپ کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔وہ صرف جماعت اسلامی کے اکابرین میں شامل نہیں تھے بلکہ وہ امت مسلمہ کے بہت بڑے سکالر تھے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون