کالم

پنجاب میںمریم اورنگزیب کا شاندار رول

قارئین کرام!وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے خطے کی سب سے بڑی اور جدید ترین کلائمیٹ آبزرویٹری(موسمیاتی رسدگاہ) کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ اس اہم منصوبے کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کی بروقت پیشگوئی، تجزیے اور پالیسی سازی میں مدد فراہم کرنا ہے۔پاکستان دنیا کے ان پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران شدید ماحولیاتی تبدیلیوں نے دیہی اور شہری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں صاف پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی، خوراک کی قلت اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان شامل ہیں جبکہ دوسری طرف سابق حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں سموگ کی صورتحال انتہائی خراب ہو جاتی ہے جس سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگلے تین چار ماہ بعد ستمبر اکتوبر نومبر میں سموگ پھر تباہی پھیلانے کے لیے تیار ہوگی مگر اس بار صورتحال حکومت پنجاب کی بہترین کوششوں کے نتیجے اور بہترین اقدامات سے اسکے اثرات گزشتہ سالوں کی نسبت کم ہونگے کیونکہ سنیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے محکمہ ماحولیات میں ایسے اقدامات اوٹھا لیے ہیں کے اگر انکے مطابق ان اقدامات پر جامع عمل درآمد ہوگیا تو شہر سموگ سے بچ جائے گا محکمہ ماحولیات میں نگرانی کا ایک موثر نظام قائم کردیا گیا ہے فیصلوں میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں دھوئیں اور سموگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ پنجاب میں پہلی بار نجی ورکشاپس کی اپ گریڈیشن کا فیصلہ کیا گیا جس میں پہلے مرحلے میں 50 ورکشاپس کو جدید آلات فراہم کیے گئے اور ورکشاپ مالکان کو 80 فیصد بلا سود قرضے بھی شامل ہیں مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی گاڑیوں کی فٹنس کی تصدیق کے عمل کو تیز کیا کیا گیا اور تمام پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی جامع ایمیشن ٹیسٹنگ کی کا عمل جاری ہے لاہور کے باہر گاڑیوں کی چیکنگ کا عمل بھی شروع کیا کیا گیا تاکہ سموگ کی روک تھام کے اقدامات کی تکمیل کی جا سکے۔اس کے علاوہ ماحول کی بہتری کے لیے لاہور کے 478 سکولوں میں شجرکاری مہم کا آغاز کیا گیا نصاب میں ماحولیاتی مسائل کی تعلیم کو شامل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پنجاب میں سموگ سے بچا کے لیے پانی کا چھڑکا اور دیگر اقدامات بھی اس مہم کا اہم حصہ ہیں جنہیں مزید موثر بنانے کےلئے مختلف اسکوارڈز تشکیل دیے گئے ہیں۔ مریم اورنگزیب نہ صرف جنگلات کی بحالی بلکہ ٹمبرز معافیہ کے خلاف بھی بھرپور جنگ لڑ رہی ہیں پنجاب۔ میں جنگلات میں اضافہ ہورہا ہے شجرکاریاں ہورہی ہیں اسکا کریڈٹ اگر مریم اورنگ زیب کو نہ دیا جائے تو زیادتی ہوگی۔وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے وژن کے تحت سموگ کی کمی اور ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کےلئے تمام متعلقہ ادارے ایک ٹیم کے طور پر کام کر رہے ہیں سیکرٹری ماحولیات راجہ جہانگیر انور نے سنیئر صوبائی وزیر کے شانہ بشانہ محکمہ ماحولیات کی بہتری کے لیے فرائض سرانجام دے رہے ہیں راجہ جہانگیر ایک بہترین آفیسر ہیں جو اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں محکمہ ماحولیات میں مختلف شعبہ جات شروع کرنے پر مریم اورنگزیب کے شانہ بشانہ محنت کررہے ہیں محکمہ ماحولیات میں کبھی ایسا برق رفتار کام نہں۔ ہوا جو اب ہورہا ہے قارئین کرام جہاں حکومت اپنا کام کررہی ہے وہاں ہمیں بھی بطور شہری اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتنی چاہیے ربِ کائنات نے زمین کو سرسبز و شاداب جنگلات، قدآور درختوں، لہلاتی فصلوں، کھیتوں، آب شاروں، دریاوں، سمندروں، پہاڑوں اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال کیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس صاف ستھرے ماحول میں بعض ایسے مضر اجزا یا مادے شامل ہورہے ہیں، جوآلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ کرہ ارض میں آلودگی پیدا کرنے والے عوامل قدرتی بھی ہو سکتے ہیں اور انسان کے اپنے پیدا کردہ بھی۔ اگر ہم قدرتی عوامل کی بات کریں، تو اس کی بڑی مثال آتش فشاں پہاڑ ہیں، جن کے پھٹنے پر دھواں اور راکھ ماحول آلودہ کردیتے ہیں،جب کہ انسان کے پیدا کردہ محرکات کی تو ایک طویل فہرست ہے۔بہرکیف، یہ ماحولیاتی آلودگی نہ صرف امراض میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، بلکہ جسم کا دفاعی نظام بھی بری طرح متاثر کررہی ہے۔ آلودگی کی کئی اقسام ہیں،جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں منفی کردار ادا کرتی ہیں۔فضائی آلودگی: آلودگی کی تمام اقسام میں سب سے خطرناک فضائی آلودگی ہے،جس نےہر جان دار کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں افراد فضائی آلودگی سے متاثر ہوکر مختلف عوراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ان عوراض میں سانس کی نالیوں کی سوزش، دمہ، سینے کا انفیکشن، دِل کے امراض ،بلند فشارِخون، ہارٹ اٹیک، انجائنا اور فالج کا حملہ وغیرہ شامل ہیں۔ فضائی آلودگی کےکئی اسباب ہیں۔ مثلا کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگنا ، صنعتی شعبہ جات میں استعمال ہونے والے مختلف فوسل فیولز، اینٹوں کے بھٹے، چمنیوں اور راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اٹھتا دھواں، ردی، ناکارہ اشیا جلانے، پرانی عمارتیں گرانے اور نئی تعمیرات کا عمل وغیرہ۔علاوہ ازیں، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع، اِن ڈور آلودگی مثلا قالین، مچھر مار اسپرے، تمباکو نوشی اور وینٹی لیشن کا مناسب انتظام نہ ہونے جیسے عوامل بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتےہیں۔ بظاہرلگتا ہے کہ درج بالا اسباب صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ، مگر مضرِ صحت مادے جیسےکاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، ایندھن سے خارج ہونے والے بخارات، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن وغیرہ فضا میں شامل ہو کر انسانی صحت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے، فضائی دھوئیں میں ایک وقت میں 8سے 10 سگریٹس کے دھوئیں کے برابر مضرِ صحت مادے پائے جاتے ہیں، جن کے باعث فضا میں پائی جانے والی حفاظتی تہہ، اوزون میں شگاف بڑھ جاتا ہے اور جو اسموگ کی صورت بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کا شمار بھی اسموگ سے متاثرہ ممالک میں کیا جارہا ہے۔ تاہم، پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ اسموگ دراصل دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بنتی ہے، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اسموگ کوکیمیائی حیثیت کی بنیاد پردو اقسام سلفورس اسموگ اور فوٹو کیمیکل اسموگ میں منقسم کیا گیا ہے۔ ہوتا یہ ہے، نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والا دھواں اور مختلف کیمیائی مادے وغیرہ مِل کر گراﺅنڈ لیول اوزون (O3)بناتے ہیں ، جو مضرِ صحت اوزون کہلاتی ہے۔ اس کے 2سے 3مائیکرو میٹر سائز کے ذرات بھی جان داروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ گراﺅنڈ لیول اوزون زمین کے قریب ہونے کی وجہ سے صرف انسانوں ہی پر نہیں، پودوں اور درختوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ فوٹو سنتھیسز کا عمل متاثر ہونے سے پودوں کی قدرتی رنگت کم یا سِرے سے ختم ہوجاتی ہے، حکومت تو اپنا کام کررہی ہے مگر ہمیں بھی بطور شہری اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے ایسے عوامل کو نہیں کرنا چاہیے جس سے ہمارا ماحول خراب ہو ماحولیاتی تبدیلی صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کا مسلہ ہے لیکن پاکستان کے صوبہ پنجاب نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے جو ماڈل اپنا ہے دیگر صوبوں کو بھی اس ماڈل پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکے ہر جاندار ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہے سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے