ڈاکٹر ریاض ہمدانی شائد واحد سید ہے جو اپنے سراپے سے نیلی بار کا حریت پسند اور باغی سردار لگتا ہے، یہ مرزا جٹ نہیں، رانجھا نہیں، رائے احمد نوازکھرل یا دلا بھٹی یا جگا ڈاکو نہیں، یہ جڑانوالہ روڈ لائلپور کا بھگت سنگھ بھی نہیں، لیکن اس کی شخصیت میں پنجاب کے گبھرو جوانوں کے سارے رنگ ڈھنگ صاف دکھائی دے جاتے ہیں۔ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے بلکہ کر گزرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے ۔ اپنے منصب کے تقاضوں کو بہترین طریقے سے سمجھنا اور شاندار سلیقے سے کر گزرنا ریاض ہمدانی کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ یہ حضرت اپنے دائیں ہاتھ سے کیا کرتے ہونگے ،کیونکہ کرنے والے سارے کام تو محاورة بائیں ہاتھ سے کر لیتے ہیں۔مجھے ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی کم گوئی پر ہمیشہ زود گوئی کا گمان رہا ہے۔ اس زود گوئی نے ساہیوال کے جملہ مفاخر کو یوں اجاگر کیا ہے، کہ مجید امجد سے نسبت ہو، یا ہڑپہ سے قربت، ثقافتی تمول ہو یا دریائے راوی سے اتصال کے اسرار و رموز سب ہماری علمی و ادبی گفتگو کے موضوعات بن چکے ہیں۔یہ شہر چیچہ وطنی کا ہمسایہ ہے، دلاوری، سرفروشی اور جوانمردی کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں۔ہمارے ہاں شہروں کی شناخت سیاست اور معیشت کے حوالے سے ہوا کرتی ہے۔ثقافت کو صرف بڑے بڑے مرکزی اور تاریخی شہروں سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے بڑی کامیابی سے ساہیوال کو تہذیبی و ثقافتی مباحث کا عنوان بنا دیا ہے۔ ویسے تو سادات ہمدان کے روحانی تصرفات اس خطے کے لیے اجنبی نہیں ہیں،خاص طور پر خطہ کشمیر اور وسطی ایشیاءشاہ ہمدان سید علی ہمدانی کے کردار کی روشنی سے علم و حلم اور راست بازی کی دولت سے مالامال ہوئے۔سید علی ہمدانی وہ منفرد مبلغ ہیں جن کی اصلاح کا رخ عوام کی بجائے ان پر تسلط رکھنے اور حکومت کرنے والے ملوک و سلاطین کی طرف رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے مبلغین اور صوفیاءسلاطین و ملوک کے ستائے عوام کے صبر و ضبط میں اضافے کی تدابیر کرنے اور انہیں آسمان میں چھپے اور وقت مقرر پر میسر آنے والے انعامات کی طرف متوجہ کرنے میں مصروف رہتے تھے، جبکہ تاریخ یہ بھی سمجھاتی ہے کہ مفلوک الحال اور زیردست مخلوق کے مسائل او مصائب کی وجہ ان کی بری تقدیر نہیں، ان پر حکومت کرنے والوں کی بری تدبیر ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سید علی ہمدانی نے پہلی بار سلاطین و ملوک کی اصلاح اور تربیت کو توجہ کا مرکز بنایا۔ان کی مقبول اور محبوب تصنیف ذخیرةالملوک اپنے موضوع پر ایک منفرد اور اہم کتاب شمار ہوتی ہے۔ اسی محترم خانوادے سے نسبت نے بھی اس جوان کے ذہنی میلانات اور قوت عمل پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر ریاض ہمدانی صوفی نہیں، پر اخلاص فی العمل کے قائل اور مجاہدے میں مصروف رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اردو ادب کے فاضل طالب علم ہیں، اردو ناول کا نو آبادیاتی مطالعہ ان کی معروف تصنیف و تحقیق ہے۔لیکن طبیعت کا اضطراب ہر لحظہ کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتا رہتا ہے۔پاکستان میں کتنی آرٹس کونسلیں اور ان میں کتنے ڈائریکٹرز ہوں گے؟ مجھے صحیح طور پر علم نہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ڈاکٹر ریاض ہمدانی جیسا متحرک، مضطرب اور فکر کی بجائے عمل پر یقین رکھنے والا کوئی اور کہاں ہوگا۔گزشتہ دنوں برپا ہونےوالی ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس (17,18 دسمبر) کا مرکزی عنوان ‘تہذیبی تشخص کی تلاش و تشکیل اور ہمارا ادب ‘ تھا۔پاکستان بھر سے اساتذہ و ماہرین اس کانفرنس کی سرگرمیوں میں شامل رہے ۔ کراچی کے احمد شاہ صاحب اپنے ادبی فیسٹیولز کے حوالے سے ایک خاص شہرت اور پذیرائی رکھتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک احمد شاہ کا ڈاکٹر ریاض ہمدانی کےساتھ موازنہ موزوں نہیں ۔ ایک بڑے شہر میں، بے پناہ جلی اور خفی وسائل سے ادبی میلے کے نام پر ایک بے ہنگم ہجوم جمع کر لینا کون سا بڑا کارنامہ ہے۔پاکستان کے ایک چھوٹے شہر ساہیوال کو علم،فن اور ثقافت کا مرکز بنا دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔پنجاب میں کتنی آرٹس کونسلیں ہیں،اور ان کے ڈائریکٹرز کے کیا نام ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔لیکن سب کو یکساں تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں۔ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی انتظامی صلاحیتیں اور قوت کار زبان زد عام ہیں۔ریاض ہمدانی ایک انتظامی سے زیادہ روحانی ڈائریکٹر اس لیے ہیں کہ وہ بہت زیادہ وسائل کی عدم موجودگی اور طرح طرح کے مسائل کے ہوتے ہوئے بھی وہ کام کر دکھاتے ہیں،جو بظاہر ناممکنات میں سے نظر آتے ہوں۔ ان کی تازہ ادبی و ثقافتی کانفرنس میں باقی تو سب کچھ وہی تھا جو ہر کانفرنس میں ہوا کرتا ہے،پر چند باتیں بڑی خاص رہیں۔ایک ہڑپہ کی تہذیبی و ثقافتی اہمیت و معنویت پر بہ اندازدگر توجہ،جس میں ہڑپہ کے ترانے یا گیت ہری یوپیا کی تیاری ، سالاری نام کی ایک خاص اجرک جس پر ہڑپہ تہذیب اور تمدن کے جملہ نشانات و علامات بنے ہوئے ہیں، رنگ بھی اس سالاری کا خاص ہے ۔ ہڑپہ تہذیب پر مصوری کی نمائش میں دو مصوروں عبدالمتین اور فاطمہ حسین کے فن پاروں کی نمائش بھی اس کانفرنس کا حصہ تھی۔ مقامی ہنرمندوں اور دست کاروں کے ہنر اور فن سے آراستہ کرافٹ بازار بھی دلچسپی کا مرکز رہا۔ہڑپہ تہذیب و ثقافت اور معاشرت کے پس منظر میں ڈاکٹر حنا جمشید کے تحریر کردہ ڈرامے مایا وتی کی پیش کش اس کانفرنس کی نمایاں بات رہی۔اس تہذیبی ڈرامے کا مرکزی خیال بلال اشرف کا جبکہ ڈرامے کے ہدایت کار ڈاکٹر حسین صادق قصوری تھے۔کانفرنس کے شرکاءکو ہڑپہ کا ثقافتی دورہ بھی کرایا گیا۔ ہڑپائی رقص نے بھی شرکاءکی دلچسپی کا سامان کیا۔اس کانفرنس کی ایک اور یادگار سرگرمی ساہیوال سنٹرل جیل میں فیض احمد فیض وارڈ کی رونمائی تھی۔کانفرںس کے شرکاءکر باجماعت سنٹرل جیل ساہیوال لے جایا گیا، جہاں انہوں نے زندان کے اس گوشے کو بہ چشم حیرت دیکھا۔ فیض احمد فیض وارڈ کی اس پیمانے پر نقاب کشائی بھی ڈاکٹر ریاض ہمدانی کے حصے میں آئی۔گویا فیض احمد فیض وارڈ بھی اب ساہیوال شہر کے مفاخر کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ ہمارے شہروں کے زندان بھی اپنے اندر کیسی کیسی کہانیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔اس ساہیوال جیل ہی میں فیض احمد فیض کے علا¶ہ ذوالفقار علی بھٹو،میر گل خان نصیر، حسین نقی، شیخ ایاز، پنڈت جواہر لعل نہرو بھی پابند سلاسل رہے۔تو گویا ہماری بامعنی تاریخ بھی ایک طرح سے حوالہ زندان ہی رہی ہے۔شاباش ڈاکٹر ریاض ہمدانی آپ نے سوچنے سمجھنے اور پڑھنے پڑھانے والے لوگوں کو ساہیوال جیل کے اس آزاد گوشے سے متعارف کرایا۔ سپریٹنڈنٹ ساہیوال جیل بھی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں جنہوں نے ایسا کرنے کی ہمت کی۔