کالم

پیکا واپس لیں!مذاکرات واحد حل

حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کے درمیان مذاکرات جاری تھے بات چیت کے تین دور ہو چکے تھے پی ٹی آئی کی ٹیم نے حکومتی مذاکرات کاروں کو اپنے مطالبات لکھ کر دیے اور حکومتی جواب آنے سے پہلے ہی مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا جو آغاز ہوا تھا وہ بے نتیجہ رہا ۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے حکومت اور پی ٹی ائی کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور دونوں فریقوں کو مزاکرات کی میز پر واپس لانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوہے۔ پی ٹی آئی نے بات چیت کے ساتھ ساثھ سوشل میڈیا پر حکومت مخالف پراپیگنڈہ مہم اور سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی ۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بار بار یہ بات دہرا رہے تھے کہ کل تک انقلاب کی باتیں کرنے والے اچانک مذاکرات کی میز پر کیسے ا گئے ۔ مزاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے جے یو آئی ایف اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر متحدہ اپوزیشن قائم کر لی اور ایک بار پھر سڑکوں پر آ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا انہوں نے نئے الیکشن کا مطالبہ بھی کر دیا ۔ آٹھ جنوری کو انتخابات کا سال مکمل ہونے پر متحدہ اپوزیشن نے احتجاج کی کال دی لیکن عوام کی طرف سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا کیونکہ عوام ایجی ٹیشن کی سیاست سے تنگ ا چکے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے صحافیوں کو آرمی چیف کو لکھے گئے خط کے بارے میں بتایا اور اس کے مندرجات بھی پریس کو جاری کر دئے لیکن پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کے مطابق انہوں نے یہ خط نہیں پڑھا ۔ عسکری قیادت نے بھی بانی پی ٹی آئی کا خط موصول ہونے کی تردید کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی چیف کو خط لکھنے کا شوشہ بھی مبینہ طور پر پراپیگنڈہ مہم کا حصہ لگتا ہے ۔ ادھر پیکا ایکٹ کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد نافذ کر دیا گیا ۔ ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ اب متحدہ اپوزیشن بھی صحافیوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں پاکستان میں مختلف ادوار میں حکمرانوں کی طرف سے پریس پر سینسر شپ لگائی جاتی رہی ۔ ایوب خان کے دور میں ٹرسٹ کے اخبارات حکوت کے حق میں لکھتے تھے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس کے زریعے اخبارات کو کنٹرول کیا جاتا تھا ۔ بھٹو دور میں بھی پریس آزاد نہیں تھا اس دور میں سنگل ٹی وی چینل حکومتی کنٹرول میں تھا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں سخت قسم کی سینسر شپ نافذ تھی اخبارات کو پریس ایڈوائس جاری کی جاتی تھی ان کے دور میں کلمہ حق بلند کرنے والے صحافیوں کو کوڑے بھی کھانے پڑے ۔ گو پرویز مشرف کھلے ذہن کے مالک تھے ان کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی اجازت دی گئی لیکن انہی کے دور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا زیر عتاب بھی رہا کیونکہ وہ اپنے خلاف تنقید برداشت نہیں کرتے تھے ۔ دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کا کنٹرول بیرون ملک گوگل سے کیا جاتا ہے اس لئے ملکی سطح پر سوشل میڈیا پر قابو پانا نا ممکن نظر ا رہا ہے ۔ چین جیسے ملک نے اپنا علیحدہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنایا مگر پھر بھی اسے کالز کے لئے گوگل کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ صرف لائیکس کی خاطر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے جھوٹی خبریں پھیلانے والے سوشل میڈیا بریگیڈ پر پابندیاں لگنی چاہیں اور انہیں سخت سزائیں ملنی چائیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے خبریں تبصرے تجزیے ٹی وی ٹاک شوز مختلف مراحل سے گزر کر آن ایر ہوتے ہیں اسی طرح پرنٹ میڈیا میں بھی خبریں کالمز رپورٹس فیچرز اور انٹرویوز اخبارات کی پالیسی کے مطابق ایڈیٹنگ کے بعد شالع ہوتے ہیں اس لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پیکا ایکٹ جیسے ڈراکونین قانون کا اطلاق انتہائی زیادتی ہے اور یہ قانون مبینہ طور پر مخالفین کو دبانے کی کوشش لگتا ہے۔ صحافتی تنظیموں کے ساتھ بات چیت کرکے اس مس کا حل نکالنا چاہے۔ جن معاشروں میں پریس آزاد نہیں ہوتا وہاں ارتقائی عمل رک جاتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے پیکا قانون میں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافتی تنظیمیں تو پہلے ہی سڑکوں پر ہیں ۔اب متحدہ اپوزیشن کو ایک نیا موضوع مل گیا ہے اور وہ بھی صحافیوں کے ساتھ کھڑی نظر ا رہی ہے ۔ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات اب ختم ہو چکے ہیں اور متحدہ حزب اختلاف اب سڑکوں پر ہے ۔ انیس سو ستتر میں بھٹو حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے خلاف نو جماعتوں نے مل کر متحدہ قومی اتحاد کے تحت تحریک چلائی آخر کار بھٹو حکومت کو مذاکرت کی میز پر انا پڑا حکومتی ٹیم میں مولانا کوثر نیازی شریف الدین پیر زادہ شامل تھے متحدہ قومی اتحاد کی طرف سے نواب زادہ نصرللہ اور پروفیسر غفور شامل تھے مذاکرات میں کافی پیش رفت ہو رہی تھی کافی باتوں پر دونوں فریقوں میں اتفاق رائے ہو چکا تھا بھٹو کچھ سیٹیں حزب اختلاف کو دینے کے لئے تیار تھے بات چیت رات دیر تک چلتی رہی معاہدہ ہونے کے قریب تھا ۔ جنرل ضیاالحق نے رات کی تاریکی میں مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کر لیا اور گیارہ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ بھٹو حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن مولانا کوثر نیازی نے ایک کتاب میں مذاکرات کی روداد بیان کی جس کا نام رکھا * اور لائن کٹ گئی* تھا۔ جب مذاکرات ختم کر دئے جائیں یا ڈیڈ لاک کا شکار ہو جائیں تو غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل جاتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے