پی ڈی ایم کا مستقبل۔۔۔۔؟
میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی ن لیگ اور فضل الرحمٰن کا ساتھ نہیں دے گی اور آج یہی کچھ ہورہا ہے ، پیپلز پارٹی کی اپنی مجبوریاں ہیں ،بھلا وہ کراچی کی حکومت کیوں چھوڑے گی ، پی ڈی ایم کی جو تحریک چل رہی ہے اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ تمام جماعتیں انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں ، میرے پروگرام میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین رانا تنویر حسین سمیت دیگر ن لیگ کے رہنماؤں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف نہیں ہوتے ،تینوں انتخابات منصفانہ نہیں ہوئے، اس کا ایک ہی حل ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں اور جس کے جو بھی تحفظات ہے ان کو دور کیا جائے تب ہی جمہوریت پنپ سکتی ہے ، اس وقت ملک میں جو جاری سیاسی کشمکش چل رہی ہے اس کے نتائج انتہائی خطرنا ک بر آمد ہونگے ، یہاں میں ایک بات اور بتاتا چلتا ہوں کہ حقیقت یہ ہے مسلم لیگ ن ہوں یا پیپلز پارٹی سب کی حکومتیں اداروں کے مرہون منت ہیں،بہت ساری ایسی باتیں ہیں جن کا مجھے علم ہے ، لوگ اس حوالے سے نابلد ہیں ، ضیاء الحق نے تو نوازشریف کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے،زردار ی یوں تو بولتے رہتے ہے لیکن وہ بھی ہر بات پر YESکہتے ہے ، یعنی کہ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اداروں سے باہر نہیں ، وزیر اعظم عمران خان بھی اداروں سے کام لے رہے ہیں ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ادارے نیوٹرل ہوجائیں تو عمران کا چلنا مشکل ہوسکتا ہے ، جب میں زمینی حقائق کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران پارٹی کو گلی ،محلے کے حالات کے بارے میں علم ہونا چاہیے، پارلیمانی نظام عرصہ دراز سے چل رہا ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہورہے ، اسی طرح ہمارے ملک میں صدارتی نظام کا بھی کوئی کامیاب تجربہ نہیں رہا ، اس نظام کو کامیاب بنانے کیلئے اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات ضروری ہیں اس موضوع پر حکومت اور اپوزیشن نے آج تک کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ،اگر نظام کو درست کرنا ہے تو پھر اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات کرنا ضروری ہونگی ، تمام جماعتیں متحد ہوکر بیٹھ جائیں اور جو ترامیم موجودہ حالات سے تصادم رکھتی ہیں انہیں باہمی اتفاق رائے سے تبدیل کیا جائے، جب تک وفاق مضبوط نہیں ہوگااس وقت تک ملکی نظام ڈانواں ڈول رہے گا اب اس میں کس انداز سے ترامیم کرنی ہیں اور انہیں کیسے منظور کرانا ہے یہ حکمران پارٹی کا مسئلہ ہے وہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے ان کو اعتماد میں لے اور پھر ترامیم کرے ، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جو تحفظات ہیں انہیں بھی دور کرنا ضروری ہے ، اس ترمیم کے حوالے میں بذات خود سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے ان پرسن پیش ہوتا رہا ، دلائل بھی دیئے ،جن ترامیم پر میں نے اعتراضات اٹھائے تھے آج حکومت بھی انہیں حوالوں سے بات چیت کررہی ہے ، مسائل کا حل پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے نہ کہ سڑکوں پر لیکن جب گفتگو کے دروازے بند ہوجائیں تو پھر احتجاج کے دروازے کھل جاتے ہیں ، آج اپوزیشن جو سڑکوں پر ہے اورمتحد ہوکر واویلا مچارہی ہیں ، مہنگائی کیخلاف آواز اٹھارہی ہیں ، حکومت دیکھے کہ آخر یہ کون سی وجوہات ہے جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے ، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا جب ایوان بالا اور زیریں کے اجلاس ہوتے ہیں تو وہاں پر سوائے ہنگاموں ، نعرے بازی اور واک آؤٹ کے کچھ نہیں ہوتا ،معزز اراکین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا لتے رہتے ہیں ، نہ قانون سازی ہوتی ہے نہ کوئی تعمیری کام ،اجلاس نشستاً برخاستاً کے تحت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے تو اس انداز میں پارلیمانی نظام کیونکر کامیاب ہوسکتا ہے ، عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے ان مقدس ایوانوں میں بھیجتی ہے کہ یہ ان کی آواز بنیں گے ،لیکن ہمارے ہاں تو ذاتی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے ،ملک اور قوم کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ، صدارتی نظام آجائے تو پھر امکانات ہیں کہ حالات تبدیل ہوجائیں لیکن اس کیلئے بھی یکسوئی سے کام کرنا ہوگا ،گوکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات کے حوالے سے رضامند نہیں کیونکہ ان کے مفادات کو زِک پہنچتی ہے اس وجہ سے وہ وفاق کو کمزور اور صوبوں کو مضبوط رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے خیال میں کرونا وائرس وبا کے دوران یہ بات طشت ازبام ہوگئی ہے کہ وفاق کو اختیارات کے حوالے سے مضبوط ہونا چاہیے خصوصی طور پر تعلیم اور صحت کے حوالے سے وفاق کو ہی اختیارات حاصل ہونے چاہیے ، آج وفاق کو کمزور کردیا گیا ہے اور اس کیلئے باقاعدہ کنکرنٹ لسٹ کو اٹھارویں ترمیم سے نکالا گیا ، وقت کا تقاضا ہے کہ اس ترمیم کے حوالے حالات جو متقاضی ہیں اس کے تحت ترامیم کی جائے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن پر کم توجہ دے اور عوام کے مسائل حل کرنے ،ڈیلیوری دے ، زمینی حقائق معلوم کرنے بارے زیادہ توجہ دی جائے ، پی ڈی ایم حکومت کو کوئی خاطر خواہ نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ، ہمارے تحفظات اپنی جگہ لیکن پی ڈی ایم کے جو اتحادی ہے وہ بھی مطمئن نہیں ، ن لیگ اپنی جگہ گیم پلان کرر ہی ہے ،پیپلز پارٹی بھی دور دور نظر آتی ہے جبکہ فضل الرحمن جذبات کی رو میں بہہ کر بہت کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں لیکن جو وہ چاہتے ہیں وہ نہیں ہوگا۔کوئٹہ کا ملتوی ہونیوالا پہلا جلسہ ہی پی ڈی ایم کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔
]]>