امریکہ ہمیشہ سے آزادی، جمہوریت اور مذہبی رواداری کے بلند دعوے کرتا آیا ہے، مگر اس کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں اور تارکینِ وطن کے حوالے سے وہاں کے سماجی روئیے ہمیشہ دوغلے رہے ہیں۔ ایک طرف دنیا کے سامنے "Land of Opportunity” کا نعرہ لگایا جاتا ہے، دوسری جانب اسلاموفوبیا اور نسلی تعصب کی جڑیں امریکی سیاست میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ اسی پس منظر میں نیویارک جیسے عظیم اور کثیرالثقافتی شہر میں ایک مسلمان امیگرینٹ، ظہران ممدانی کا میئر منتخب ہونا ایک تاریخی موڑ ہے۔ یہ جیت نہ صرف امریکی سیاست میں ایک نئی ہوا کا جھونکا ہے بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاستدانوں کیلئے ایک براہِ راست پیغام بھی ہے کہ نفرت کے بیانیے اب عوام کے دلوں سے کمزور پڑنے لگے ہیں۔ظہران ممدانی یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق جنوبی ایشیائی نژاد خاندان سے ہے۔ ان کے والدین ہجرت کر کے امریکہ آئے اور نیویارک میں مقیم ہوئے، جہاں ممدانی نے اپنی تعلیم مکمل کی اور سماجی خدمت کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ ایک عام خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا وژن اور خدمت کا جذبہ غیرمعمولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نیویارک جیسے پیچیدہ، متنوع اور عالمی شہر کے میئر کے طور پر عوام کا اعتماد حاصل کیا۔نیو یارک میں ہونیوالے انتخابات میں ظہران ممدانی نے 573,169 ووٹ حاصل کر کے فیصلہ کن برتری حاصل کی۔ یہ تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام نے مذہب یا نسل سے ہٹ کر کارکردگی اور وژن کو ترجیح دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ممدانی نے اپنی انتخابی مہم میں کسی خاص مذہبی شناخت کو نمایاں نہیں کیا بلکہ اپنی توجہ سماجی انصاف، رہائش، تعلیم، اور شہری مساوات جیسے مسائل پر مرکوز رکھی وہی مسائل جن سے عام نیویارکر روزانہ دوچار ہوتا ہے۔ان کی کامیابی کو اس لیے بھی تاریخی کہا جا رہا ہے کہ نیویارک امریکہ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بااثر شہر ہے۔ یہاں کا میئر محض ایک مقامی عہدہ نہیں بلکہ امریکہ بھر میں سیاسی رجحانات کی سمت متعین کرتا ہے۔ اگر نیویارک ایک مسلمان اور امیگرینٹ میئر کو قبول کر لیتا ہے، تو یہ پورے ملک کے لیے ایک طاقتور پیغام ہے کہ اب نسل یا مذہب نہیں بلکہ صلاحیت اور کارکردگی اصل معیار ہیں۔یہ وہی امریکہ ہے جہاں چند سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کھلے عام مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کی بات کی تھی۔ انہوں نے بارہا مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیئے حتی کہ لندن کے مسلمان مئیر صادق خان پر بھی توہین آمیز تبصرے کیے۔ ٹرمپ اکثر صادق خان کو "ناکام” قرار دیتے اور طنزیہ انداز میں کہتے کہ لندن کا مئیر دہشتگردوں کا وکیل ہے۔مگر اب حالات نے پلٹا کھایا ہے وہی ٹرمپ اب دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی سب سے بڑی ریاستی طاقت، نیویارک، کا سربراہ ایک ایسا شخص بن گیا ہے جو نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ایک امیگرینٹ بھی ہے۔یہ منظر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانیے کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ پہلے امریکہ کے نعرے کے تحت تارکینِ وطن کو شک کی نگاہ سے دیکھا، مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور سفید فام قوم پرستی کو ہوا دی۔ لیکن ظہران ممدانی کی جیت نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ بدل چکا ہے۔ اب عوام مذہب یا نسل نہیں، بلکہ انصاف، برداشت، اور اہلیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ظہران ممدانی نے اپنی جیت کے بعد خطاب میں نہایت عاجزی سے کہا:”میں یہاں اسلام کی نمائندگی کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے آیا ہوں۔ میرا مقصد ایک ایسا نیویارک بنانا ہے جہاں ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو، خود کو برابر کا شہری محسوس کرے۔”یہ الفاظ نہ صرف ٹرمپ ازم کے خلاف ایک نظریاتی جواب تھے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بھی ایک پیغام تھے کہ نفرت کے دور میں بھی رواداری اور خدمت کا جذبہ غالب آ سکتا ہے۔تاہم ایک اور پہلو جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ آج دنیا بھر کے مسلمان بالخصوص اور تھرڈ ورلڈ ممالک کے عوام ظہران ممدانی کے مئیر منتخب ہونے پر فخر تو محسوس کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ اپنے اپنے ممالک میں وہ ووٹ کے صحیح استعمال، الیکٹورل سسٹم کی شفافیت اور جمہوریت کی بقا کیلئے جدوجہد نہیں کرتے۔جس جمہوری نظام کی بدولت ممدانی جیسے افراد کو ووٹ ملا، اسی نظام کی مضبوطی نے یہ ممکن بنایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے طاقتور سابق صدر کی بھرپور مخالفت، میڈیا مہم اور اربوں ڈالر کے اثرورسوخ کے باوجود الیکشن کمیشن یا کوئی ادارہ ان کے ووٹ چرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔یہی وہ فرق ہے جو ترقی یافتہ اور پسماندہ معاشروں میں دیوار کی طرح حائل ہے مسلمان ممالک میں اکثر ووٹ کسی اور کو پڑتے ہیں اور جیت کسی اور کی ہوتی ہے۔البتہ چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے۔ ٹرمپ کے حامی میڈیا نے فوری طور پر ممدانی کے اسلامی پس منظر کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ کچھ قدامت پسند تجزیہ نگاروں نے انہیں سیکیورٹی رسک قرار دینے کی مہم شروع کی۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی نوجوانوں اور شہری حلقوں نے ان بیانات کو رد کرتے ہوئے ممدانی کی حمایت میں کھل کر آواز اٹھائی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نیویارک کے مسلمان میئر کی کامیابی مستقبل میں امریکی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے گی۔ یہ امکان اب پیدا ہو چکا ہے کہ اقلیتی برادریاں، خصوصا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد امریکی، آئندہ قومی سطح کی سیاست میں مزید نمایاں کردار ادا کریں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے یہ لمحہ شاید ایک تلخ یاد بن جائے۔ وہ شخص جو لندن کے مئیر کی توہین کرتا رہا، اب اسے دیکھنا پڑ رہا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی قیادت ایک ایسے مسلمان کے ہاتھ میں ہے جو امیگرینٹ پس منظر رکھتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر گویا پیغام واضح ہے وقت بدل گیا ہے، اور دنیا اب نفرت نہیں بلکہ تنوع کو اپنانے کے راستے پر چل پڑی ہے۔نیویارک کے عوام نے ووٹ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ امریکہ کی اصل طاقت اس کا تنوع ہے، اس کی وحدت نہیں بلکہ اس کی رنگا رنگی ہے۔یہ جیت صرف ظہران ممدانی کی نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کی جیت ہے جو مساوات، انصاف اور انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔نفرت ہار گئی، انسانیت جیت گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور نیو مسلم مئیر آف نیویارک

