Site icon Daily Pakistan

”کالے بھونڈ”– جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ!

''کالے بھونڈ''-- جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ!

''کالے بھونڈ''-- جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ!

تحریر!عرفان صدیقی
گزشتہ ہفتے ، سپریم کورٹ میں کالی بھیڑوں اور بلیک مبل بی (Black Bumblebee) کا تذکرہ کچھ اس انداز سے آیا کہ سنجیدگی میں لپٹا کورٹ روم نمبر ایک قہقہوں سے گونج اٹھا۔ میرا دل بھی سنجیدہ گفتاری بلکہ تلخ نگاری سے اوبنے لگا ہے۔ سو، جی چاہتا ہے ماحول کی اس شگفتگی سے تھوڑ الطف اٹھالیا جائے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے پانامہ کے حوالے سے ججوں میں کالی بھیڑوں کے ذکر کی گونج سپریم کورٹ میں سنائی دی تو اٹارنی جنرل نے وضاحت کر دی کہ وزیر اعظم کا اشار ا ماضی کے کچھ حج صاحبان کی طرف تھا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کو پیغام دیا کہ ہم کالی بھیڑیں نہیں، بلیک بمبل بی (Black Bumblebee) ہیں ۔ جسٹس صاحب تو انگریزی زبان پر بھر پور دسترس رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن انہوں نے ہم جیسوں کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میں نے گگل کو پکارا۔ لغت سے مدد لی لیکن کچھ پلے نہ پڑا۔ خاصی سرکھپائی کے بعد کچھ عالم فاضل دوستوں سے رجوع کیا مگر کسی مخصوص معنی یا یک لفظی اردو متبادل پر اتفاق نہ ہو سکا۔
عطا الحق قاسمی بولے سب کالا بھونڈ کہہ رہے ہیں، آپ بھی یہی سمجھیں ۔ افتخار عارف نے کہا شہد کی بڑی مکھی ۔ سہیل وڑائچ کہنے لگے ہے تو بھونڈ ہی مگر بھر زیادہ مناسب ہے۔ خورشید ندیم کا پیغام آیا سارنگ یا سارنگ لکھی۔ سیاہ کبھی یا ذباب ہے تو خورشیدندیم کا یا سیاہ یا اسود اظہار الحق نے بتایا بھونڈ ہی کہہ سکتے ہیں ۔ اکادمی ادبیات کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے راہنمائی کی جھنورا زنبور سیاہ ۔ سارنگ ۔ بھونڈ شعیب بن عزیز نے استادانہ انداز میں سمجھایا شہد کی بڑی سیاہ مکھی ۔ اسے ہم بچپن میں مگھا کہتے تھے۔ ہمارے پڑوسیوں کے بچے جھانسی سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ وہ اسے بڑ مکھی کہتے تھے۔ سو اسے کالامکھا یا سیاہ بڑ مکھی کہہ سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر حسین پراچہ بولے کالی بھیڑ یا کالا بھونڈ ۔ لسانیات کے ماہر ڈاکٹر قاسم بھکیو نے کہا کالی بھولی یا سر پیر زادہ نے اسے کہا تو زنبور سیاہ مگر ووٹ بھونڈ کے حق میں دیا۔ بلال غوری کی رائے تھی کالی مکھی یا کھونڈ ایک اسے پوٹھوہاری دوست نے اس کا ترجمہ ڈڈار اور دوسرے نے ڈیمو کیا۔ تاہم کالے بھونڈ پر اجماع امت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔میری الجھن یہ ہے کہ یہ ہے کہ کالا بھونڈ کوئی زیادہ شائستہ ی نستعلیق استعارہ نہیں۔ یہ غیر رومانوی اور غیر شاعرانہ بھی ہے۔ مجھے پوری اردوشاعری میں کوئی ایک شعر بھی نہیں ملا جس میں بھونڈ” کا لفظ استعمال ہوا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جسٹس صاحب کسی اگلی سماعت میں خود ہی بلیک بمبل بی کا کوئی اچھا سا اردو متبادل تجویز کر دیں۔
مختلف تراجم کے باوجود میرے دوستوں نے البتہ مکمل اتفاق کیا ہے کہ کالا بھونڈ سخت زہریلا کیڑا ہے۔ اگر یہ ایک سے زیادہ یعنی لارجر یا گل جتھہ کی شکل میں ہوں تو ڈنک زدہ شخص کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔
کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ ایک دوست کا فون آگیا۔ چھوٹتے ہی کالے بھونڈ کی کتھا چھیڑ دی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ دنیا بھر کے حج اس طرح کی خوش کلامی کرتے اور لطیف چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں۔ اسے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ نہایت صاحب فراست اور کثیر المطالعہ حج ہیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ استعارہ استعمال کیا ہے۔ وہ بولا اس میں ایسی کون سی فراست اور دانش ہے؟میں نے دھیمے لہجے میں کہا دیکھو! یہ سیاہ بھونڈ ، کالی بھولی ، زنبور سیاہ، ذباب اسود یا ڈیمو، جو کچھ بھی ہے، ایک سچے ، کھرے اور حقیقی منصف کی طرح ، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ اس کے سامنے گورا آئے یا کالا ، بچہ آئے یا بوڑھا، عورت آئے یا مرد کسی سے بھی کوئی امتیازی رویہ روا نہیں رکھتا۔ وہ کسی کی سیاسی وابستگی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی مسلم لیگ (ن) کا ہو یا پیپلز پارٹی کا، پی ٹی آئی کا ہو یا ایم کیو ایم کا ، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور ترازو کے پلڑوں میں بال برابر جھول نہیں آنے دیتا۔ گہری معنویت کے علاوہ اس استعارے میں ایک صوری یا ظاہری حسن بھی ہے۔ پروں والے زہر یلے سیاہ بھونڈ کی دم پر پیلے رنگ کی دھاریاں کی ہوتی ہیں۔ یہ دھاریاں حج صاحبان کی سیاہ عباں پر سنہری ریشمی حاشیوں سے گہری مشابہت رکھتی ہیں ۔ میری روانی میں خلل ڈالتے ہوئے وہ غصے میں بولا بس بس بس۔ بند کرو یہ خوشامد ۔ مت جھوٹ بولو کہ کالا بھونڈ سب سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ ذرا بتا ، نواز شریف کو سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے لقب کس نے دیئے تھے؟ کس نے وزیر اعظم کو پیغام دیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ خالی ہے، اور پھر کس نے ریمانڈ پر زیر حراست ملزم کا استقبال گڈ ٹوسی یو کہہ کر کیا تھا؟ یہ کیسے انصاف پسند بھونڈ ہیں جو کسی مجرم کے سر پر تلیوں کی طرح منڈلاتے اور کسی بے گناہ کے سینے میں اپنا گہرا زہریلا ڈ تک اتارتے ہوئے اسے وزیر اعظم ہاس سے نکال دیتے ہیں ۔ میں نے اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا یار یہ سب ماضی کی باتیں ہیں ۔ ۔ وہ اور زیادہ بپھر گیا اچھا تو یہ بتا جن جج صاحب نے تمہیں کالے بھونڈ کا استعارہ دیا ہے انہوں نے بج رانا شمیم کو کس طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا ؟ کس طرح اس کا نام ای سی ۔ ایل میں ڈال دیا تھا۔ صرف اس لئے کہ اس نے شواہد کے ساتھ یہ الزام لگایا تھا کہ ثاقب نثار نے نواز اور مریم کے معاملے میں اسلام آباد کے ججوں پر دبا یہ ڈالا ۔ آج وہی بات چھ بج صاحبان نے کہی تو جج صاحب کا موقف بدل گیا ہے ۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بولا سنو سنو ! جب چار
سال پہلے ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان کے دور میں نواز شریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی لگ گئی تو مسلم لیگ (ن) فریادی بن کر عدالت گئی۔ تب جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے درخواست ہی کو نا قابل سماعت قرار دے کر باہر پھینک دیا اور کہا سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائے جائیں۔ تقریر پر پابندی سے نواز شریف کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ اور آج عمران خان کے معاملے پر ان کی رائے یہ ہے کہ کسی کی تقریر یا بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی چاہے وہ جیل میں بند کوئی سزا یافتہ مجرم ہی کیوں نہ ہو؟ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے چار ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ وڈیو لنک پر عمران خان کا خطاب براہ راست پچیس کروڑ عوام تک پہنچایا جائے ۔۔۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بکے جا رہا تھا۔ میں نے تنگ آکر فون بند کر دیا۔
میں پوری طرح عالی مرتبت جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ کھڑا ہوں ۔ انہوں نے کالے بھونڈ کے معنی خیز استعارے سے واضح پیغام دیا ہے کہ عدلیہ انصاف کی کارفرمائی کے لئے اپنا ڈنک کالے بھونڈ کی طرح بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت وعناد پوری زہرنا کی کے ساتھ استعمال کرے گی۔
تاہم حقیقت یہی ہے کہ پون صدی کے دوران میں کالے بھونڈوں کا کردار ایک جیسا نہیں رہا۔ آج تک انہوں نے جمہوریت پر حملہ کرنے اور آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو نہیں کاٹا۔ بلکہ ان کے ہاتھوں پہ بوسے دیئے اور ان کے چمنستانوں کی خوش رنگ تتلیاں بن گئے۔ البتہ سیاستدانوں کے سینے ان کے زہر یلے ڈنکوں سے چھلنی ہوتے رہے۔ ایک الجھن یہ بھی ہے کہ کالے بھونڈوں کی عدل فرمائی میں تسلسل اور یکسانیت کے بجائے ایسا تاثر ملتا ہے کہ کچھ کے لئے تو وہ جیلی تتلیاں اور کچھ کے لئے زہر یلے سیاہ بھونڈ بنے رہتے ہیں۔

Exit mobile version