یہ کتاب مصنف سید ابوالااعلی مودودیؒ نے ۳۲ سال کی عمر میں لکھنی شروع کی تھی۔تین سال کی محنت شاقہ کے بعد انہوں نے اسے مکمل کہا۔پہلی اشاعت ۰۳۹۱ءمیں دارلمصنفیں اعظم گڑھ یوبی انڈیا سے ہوئی۔ حکیم الامت علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جہاد کے موضوع پر ایسی محققانہ اور غیر معذ خواہانہ کتاب اُردو تو کیا دوسری کسی زبان میں بھی نہیں لکھی گئی۔اس کا محرک یہ ہوا کہ کی ۶۲۹۱ءمیں جب سوامی شردھانند کے قتل پر سارے ہندوستان میں ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔گاندھی جی جیسے شخص نے بھی کہا کہ”اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوارہے“ تو ایک روز مولانا محمد علی جوہرؒ نے اپنی تقریر میں کہا کہ کاش کوئی بندہ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کتاب لکھے جو مخالفین کے سارے اعتراض و الزامات کو دفع کر کے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پرواضح کر دے۔ مصنف نے مولانا کی زبان سے یہ بات سن کر اپنی دل میں خیال کیا کہ وہ بندہ خدا میں ہی کیوں نہ ہوں ۔اس کتاب کے ۴۸۹۱ءتک دس اشاعت ہو چکیں تھیں۔مصنف دیباچہ میں لکھتے ہیںکہ دور جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں اس میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیروں کو خونزیزی کی تعلیم دیتا ہے۔یہ بات اُس وقت کہی ہوتی جب پیروان اسلام کی تلواروں کے سامنے وہ دبے جارہے تھے۔اُس وقت تو شاید فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوتی۔ مگر یہ کام اُس وقت لگایا گیا جب اس نے دنیا کی کمزور قوموںاِس طرح نگلنا شروع کر دیا تھا جیسے کوئی اژدہا چھو ٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اور نگلتا ہو ۔ دنیا میں عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن آمان کے سب سے بڑے دشمن ہوں ، جنھوںنے خود کون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کر دیا ہو،آخر انھیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس کی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہےے۔اس کتاب کے سات ابواب ہیں پہلا باب: اسلامی جہاد کی حقیقت ۔ دوسرا باب: مدافعانہ جنگ۔تیسرا باب: مصلحانہ جنگ ۔ چھوتھا باب: اشاعت اسلام اور تلوار ۔ پانچواں باب: اسلامی قوانین صلح وجنگ۔چھٹا باب: جنگ دوسرے مذاہب میں اور ساتوں باب: جنگ تہذہب جدید میں۔ اسلامی جہاد کی حقیقت کے بارے لکھتے ہیں کہ اسلام میں انسانی جان کا احترام ہے۔اللہ قرآن میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جو کسی کی جان لے بغیر اس کے اسنے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کی خون کیا۔دوسری جگہ اللہ نے اپنے نیک بندوں سے فرماتا کہ وہ اصل جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے بغیر حق کے ہلاک نہیں کرتے ۔مصنف لکھتے ہیں۔ اس تعلیم کے اولین وہ عرب لوگ تھے جن کے نذدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ اپنی ذاتی فائدے کےلئے اولاد سی چیز کو بھی قتل کر دیا کرتے تھے۔اللہ کے پیغمبر نے فرمایا کہ بڑے گنانوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور قتلِ نفس اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹ بولنا ہے ۔ ”مدافعانہ جنگ“ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ اسلام نے کسی ایسے حملے کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی۔ جو دین اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں پر اسلام کے سوا کوئی دورسرا نظام مسلط کرنے کےلئے کہا جائے۔سختی کے ساتھ حکم دیا کی جو کوئی تمہارے انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے تم پر ظلم و ستم ڈھائے تمھاری جائز ملکیتوں سے تم کو بے دخل کرے۔ تم سے ایمان کی آزادی سلب کرے، تمہیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے تمہارے اجتماعی نظام کر درہم برہم کرنا چاہےے۔ تم اس کے مقابلے میں ہر گز کمزروری نہ دکھاﺅ اور اپنی پوری طاقت اس کے ظلم کو دفع کرنے میں صرف کر دو۔”مصلحانہ جنگ“ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ مدافعانہ جنگ جس قوت کو مٹنے اور تباہ ہونے سے بچایا گیا۔ اس قوت سے کچھ اور کام لینا مقصود ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تم ایک بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایات کےلئے برپاہ کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہر۔ مسلمان کسی خاص نسل یا خاص ملک کےلئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا کئے ہیں۔وہ خدمت یہ ہے کہ نیکی کا حکم کریںاور بدی سے روکیں۔باب چہارم عنوان ” اشاعت اسلام اور تلوار“میں لکھتے ہیں کہ ہم نے دیکھ لیا کہ کسی جگہ بھی غیر مسلموں کو بزور شمشیر مسلمان کرنے کا حکم موجود نہیں۔بلکہ کسی حکم میں معنی نکالنے کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔ کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔قرآن فرماتا ہے کہ ان سے جنگ کرو جہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کےلئے ہو۔ جب یہ دونوں چیزیں ختم ہو جائیں تو قتال کا دوازہ بند کر دیا جائے۔قرآن میں ہے کہ اگر وہ فتنہ برپاہ کرنے سے باز آ جائیں تو جان لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر زیادتی روہ نہیں ہے ۔ ”اسلامی قوانین صلح و جنگ“ کے عنوان میں مصنف لکھتے ہیں کہ جنگ کا مقصد اگر کمزور قوموں کی آزادی چھیننا، ملکوں کی دولت لوٹنا اور بندگان خدا کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنا ہو تو ایسی جنگ خواہ کتنے ہی ضبط نظم کے ساتھ کی جائے ، خواہ اس میں غیر مقاتلین کی عصمت، زخمیوں کی حفاظت اموات کی حرمت اور معاہد کی عزت کا کتنا ہی لحاظ رکھا جائے، خواہاس میں لوٹ مار، آتش زنی، تباہ کاری، قتل عام اور جنگ حرمات سے کتنا ہی پرہیز کیا جائے۔ بہر حال وہ اصلیت کے اعتبار ایک طالمانہ جنگ ہی رہے گی۔ اور اس انضباط و انتظام سے اس نوعیت میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہو گا کہ وہ ایک بدتر ظلم نہ ہو گی خوش تر ظلم ہو جائے گی۔اسلام کی تعلیم جنگ کے مطالق اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف اس کے مقصد کی پاکیزگی اور شرافٹ و بزرگی کو ثابت کرنا ہے۔ عرب میں جنگ کی ایک حیثیت قومی پیشہ کی سی تھی۔روم ایران کا طریق جنگ یہ تھا کہ ایک قوم جب دوسری قوم پر چڑھائی کرتی تھی تو تہیہ کر لیتی تھی کہ اس کومٹا کر چھوڑے گی۔مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز عملاً مفقود تھا۔ دشمن کا ہرفرد گردن زنی سمجھا جاتا تھا۔”جنگ دوسرے مذاہب میں “کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ گیتا کے فلسفہ میں کرشن نے کہا ہے کہ انسان ایک دفعہ مر کر دوبارہ زندہ ہوتا ہے اس لیے اس کوقتل کر دینا کوئی بری بات نہیں۔ روح کی جسم کی حیثیت جسم کے پکڑوں کی ہے۔ لہٰذا کسی کو کاٹ ڈالنا جسم سے پرانے کپڑے پھاڑنا ہے۔ جب انسان کو ایک دن مرنا ہی ہے تو اسے مار دینا کیا برائی ہے۔ بس گیان حاصل کرلو پھر کوئی بدتر سے بدتر فعل بھی ہمارے تمہارے گناہ نہیں ۔اس تعلیم کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کے دل میں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت ہی باقی نہ رہے۔بدھ مذہب کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ بدھ مذہب ایک ہنسائی مذہب ہے۔ بدھ مذہب کے احکام عشرہ میں سب سے پہلا تاکیدی حکم یہ ہے کہ ”کسی جاندار کو ہلاک نہ کرو“حد یہ ہے کہ بھکشوں کو برسات کے تین مہینوں میں گوشہ عزلت سے باہر تک نکلنے کی ممانت کرتا ہے تاکہ زمین پر چلانے سے حشرات الارض نہ کچلے جائیں۔ان شدید ہنسائی احکام کے ساتھ جنگ کی اجازت تو درکنار اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ مسیحیت کے حوالے لکھتے ہیں کہ انجیل کے مطابق مسیحیت جنگ کی سخت مخالف ہے۔ چائے جنگ حق کےلئے ہو یا غیر حق کےلئے۔متی کے مطابق اس میں بڑا حکم ہے کہ خدا سے محبت رکھنے کے بعد اپنے پڑوسی سے محبت رکھو۔جوکوئی تیرے داہنے گال پر تماچہ مارے اسے اس کے سامنے دوسرا گال پیش کر د و ۔’ ’جنگ تہذیب جدید میں“ جنگ عظیم ۸۱۔۴۱۹۱ئ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ جنگ چھ بڑی قوموں کے درمیان ہوئی۔ سوائے اس چیز کے اور کوئی چیز نہیں تھی کہ ہر ملک اپنے حصہ سے زیادہ لینا چاہتا تھا۔ ہر ملک چاہتا تھا کہ دوسرے کو مٹا کر اس کے منافع سے خود مستفید ہو۔ گروٹیوس جیسے اخلاق پرور مقنن کی بھی یہ رائے تھی کہ ”قانون میں اُن تمام لوگوں کوقتل کردینا جائز ہے جو دشمن کے حدود میں پائے جائیں۔ اس میں عورتوں اور بچوں کا کوئی اسثناءنہیں ہے اوراجنبی باشندے بھی مستثنیٰ نہیں ہیں جو ایک معقول مدت کے اندر دشمن کے علاقہ کو نہ چھوڑ دیں“ستر ھویں صدی تک یورپ محارب اور مقاتل کے فرق سے ناآشنا تھا۔ مصنف آخر میں اپنی تبصرہ میںلکھتے ہیں کہ اوّل توقوموں کے درمیان فی الحقیقت کوئی قانون ہی نہیں ہے جبکہ اسلام کا قانون صحیح معنوں میں ایک قانون ہے ۔ جسے بالاتر قوت نے وضع کیا ہے۔ثانیاًچونکہ عمل کی تمام قوتیں فوجی گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اس لیے کتابوں میں لکھا ہوا قانون جنگ کتابوں میں دھرا رہتا ہے۔ اسکے مقابلہ میں اسلام کا قانون جنگ پورے اسلامی قانون کی طرح ایک پختہ اور ناقابل تغیر قانون ہے ۔ ان کو اب کوئی نہیں بدل سکتا۔ثالثاًبین الملی قانونِ جنگ کی بنیادلڑنےوالوں کی باہمی مفاہمت پر رکھی گئی ہے۔اس طرح یہ قانون کسی اخلاقی فرض کے احساس پر قائم نہیں ہے بلکہ محض مبادلہ اور باہمی مراعات پر قائم ہے۔اسلامی قانون کسی مسلمان کا حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ کسی حال میں ان کی پابندی سے بری الذمہ ہو جائے۔ جسے مسلمان رہنا ہے اس کو بہر حال اس قانون کی سیادت تسلیم کرنی ہے۔ رابعاًمغرب کے قانون تو ابھی بنا ہے اسلامی قانو ن شروع سے دنیا میں تہذیب کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔خامساًمغربی تہذیب چند عملی قوانین کا پابند کر کے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ قوت جہاں چائے استعمال کرے ۔ صرف یہ کہتا کہ فلاں کو فلاں طریقے سے مارو اورفلاں طریقے سے نہ مارو ۔ کس غرض کےلئے مارو اور کس غرض کے لیے نہ مارواس سے کوئی تعرض نہیں کرتی۔قارئین یہ کتا ب تو نصف صدی سے زیادہ پہلے کی لکھی ہوئی ہے۔ اب تو یورپ اور امریکا جو اپنے آپ کو مہذب کہتے ہیں، نے دنیا میں جنگ کو اپنی مرضی سے لڑا۔امریکا نے سفاک کام کیا اور جاپان پر پہلا اور آخری ایٹم بم گراکر لاکھوں لوگوں کو قتل اور اپاہج کیا۔ برما میں ہنسا کے پجاریوں نے مسلمان مرروں، عورتوں اور بچوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا ۔ عراق میں پانچ لاکھ بچوں کی دودھ کی سپلائی روک کر شہید کیا۔ فلسطین اور کشمیر میں بے انتہا مظالم پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ افغانستان پر برطانیہ،سویٹ یونین روس اور آخر میں امریکا نے اڑتالیس نیٹو اتحادی ملکوں کے ساتھ حملہ کیا۔ ڈیزی کٹر بم استعمال کئے۔ پورے افغانستان کو تورا بورا بنا دیا ۔ دنیا کا سب سے بڑاا بم، جیسے مدر آف بمز کیا جاتا ہے گرایا۔ اقوام متحدہ میں پانچ مستقل بڑے ملک دنیا پر اپنی مرضی سے جنگیں مسلط کرتے ہیں۔ دینا میں اگر امن اور انصاف قائم کرنا ہے تو اسلام کے پرامن آشتی اور محبت کے نظام کو رائج کرنا ہو گا پھر جنگ صرف جہاد فی سبیل اللہ کے تحت لڑی جائیں گی۔ قوم ،وطن، علاقہ، مال کےلئے نہیں بلکہ مظلوموں کو انصاف دلانے کےلئے جنگیں لڑی جائیں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔
کالم
کتاب :الجہاد فی الاسلام
- by Daily Pakistan
- اکتوبر 19, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 2049 Views
- 2 سال ago