Site icon Daily Pakistan

کلام اقبالؒ میں یقین کی اہمیت

riaz chu

عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست منعقدہ21دسمبر2022ءمیں ”جوہوذوق یقیں پیدا“کے عنوان پر محمدعثمان غازی نے اپنے مقالے میں بتایاکہ یہ مصرعہ علامہؒ کی مشہورطویل نظم ”طلوع اسلام“سے لیاگیاہے۔”ذوق یقین“ کامطلب جذبہ ایمانی ہے۔ غلامی کے نتیجے میں یقین سے متضادصفات قوموں میں جنم لیتی ہیں جس کاعلاج علامہؒ کے نزدیک خودی کی پرورش ہے۔ دورغلامی میں جس طرح خودی کی ضرورت تھی آج اس سے زیادہ ہے۔ علامہؒ نے مسلمان بچوں کویہ پیغام دیاکہ اندرونی یقین تم پیداکروتوبیرونی دنیاتمہارے زیرنگیں ہوجائے گی۔ ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم پاو¿ں کاٹنے کے لیے تیارہوجاتے ہیں لیکن پاو¿ں میں پڑی زنجیروں کونہیں توڑتے۔ ہماری تباہی کاذمہ دارایک خاص طبقہ ہے اوراس کامقابلہ شعورکے ہتھیارسے کیاجاسکتاہے۔ یقین توحقائق کودل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنے کانام ہے۔ قرآن مجیدمیں یقین کی اصطلاح ایمان بالآخر کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اقبالؒ کی شاعری قرآن مجیدکی ترجمانی اورسیرة النبی کی اطاعت شعاری سے مستعارہے۔اقبالؒ نے قوم کو غلامی سے چھڑانے کےلئے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کی۔ بنی اسرائیل میں یہ کام انبیاءنے کیا ہے۔ مگراللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے یہ توفیق امت محمد کے علماءکو عطا ہوئی۔ علامہ اقبالؒ نے قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی لیے برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی نے ان کی بے ضرر نظموں کے سوا ان کا معنی خیز کلام عوام تک نہ پہنچنے دیا۔ورنہ پاکستان جن مشکلات اور مصائب سے گزرا وہ ا±سے کبھی پیش نہ آتے۔ ملوکیت ساحری کی ایک شکل ہے۔ جس کے سبب لوگ نیند میں محو رہتے ہیں۔ جب تک عوام شاہی کے فریب میں مبتلا رہتے ہیں ان کی غلامی کی حالت برقرار رہتی ہے۔علامہ اقبالؒؒ نے مسلمانوں کی ہمت کو جلا دینے کےلئے ہر دفعہ ان کو ان کے انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کی یاد دہانی کرائی اور قرآن مجید کو ان کا حقیقی رہنما گردانہ۔ انہوں نے صرف اس بات پر زور دیا کہ انسان کو حکمرانی کےلئے پیدا کیا گیا۔ یہ زمین تو کچھ بھی نہیں۔ خودی سے روشناس ہونے پر اس نے کائنات میں راج کرنا ہے۔ نظام خداوندی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اقبالؒؒ نے ہر اس چیز کو اپنے خیال آ افکار و نظریات میں شامل کیا جس سے آج کا مسلمان بیدار ہوسکے اور اللہ کے دین کو اور اپنی شناخت کو جان سکے۔مگر افسوس ہم آج تک اقبالؒؒ کی خودی کو نہ جان سکے نہ چانچ سکے۔ ہم نے آزادی تو حاصل کرلی مگر اپنی شناخت کا پتہ نہیں پا سکے۔ اقبالؒؒ نے کھول کھول قرآن میں موجود مومن کی پہچان بتائی۔ کامیاب قوموں کے خد و خال کو سمجھایا۔ دین کیا ہے اور کیوں ہے اس کی تشریح کی تاکہ جو غلامی ان کے حصے میں آئی وہ ان کے آنے والی نسل نہ جھیلے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کہ اقبالؒؒ نے جو خواب دیکھا تھا وہ اب بھی ادھورا ہے۔خودی کا فلسفہ مسلمانوں کےلئے وہ ایک مشعلِ ا±مید بن کر ا±تارا گیا۔ جس سے ا±ن کے ایمان کو وہ تقویت ملی کہ جس کے زیرِبازو وہ اپنی حقِ انفرادیت کی جنگ لڑ سکیں۔ اقبالؒ کی سوچ اور آواز سے ہندوستان کے مسلمانوں کی تقدیر کا دروازہ کھلا، ایک ایسی آواز جس نے مسلمانوں کو دل و دماغ اور روح سے صرف ایک ہی مقصد – آزاد مسلمان ریاست کا قیام پہ متفق کر دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے جس بھی قوم نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے میں دیر کی، ا±س نے اپنی آزادی کی بھاری قیمت ادا کی۔ پوری دنیا چشم دید گواہ ہے ا±س کفارہ کی قیمت کی جو برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی آزادی اور جنگِ حریت کی ادا کی۔علامہ محمد اقبالؒ کو شرق و غرب میں مینارن±ور کی حیثیت حاصل ہے جس کے افکار کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا سمجھاجاتاہے۔ نو آبادیاتی دور کے غیر یقینی حالات میں علامہ اقبالؒ کے سوزِ یقیں سے لبریز پیغام نے یہاں کے محکوم باشندوں کے دلوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کیا۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے مظلوم باشندے جو طالع آزما ،مہم ج±و اور استبدادی قوتوں کے شکنجے میں جکڑے تھے سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور تھے۔اس عہد میں بر صغیر کے محکوم عوام کا لہو سوزِ یقین سے گرمانے میں علامہ اقبالؒ نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ نہ صرف اس خطے بل کہ اقوام عالم کی تاریخ کا درخشاں باب ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اس بات پر زور دیا کہ بر صغیر کے باشندے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے وطن کی آزادی کےلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ اقبالؒؒ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ انسانی تجربہ سلسلہ اعمال کی کڑیوں میں سے ہے، ہر عمل ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے اور ایک کے بعد دوسرا عمل مجبوراً ہوتا چلا جاتا ہے جو کہ ایک باہمی وحدت مقصد میں منسلک ہوتا ہے۔ انسانی خودی کا اور تقدیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر انسان نفس کی تربیت میں ان اصولوں کو مدنظر رکھے تو اس کے اندر اندرونی صلاحیتیں ابھرتی ہیں جس سے وہ اپنی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے۔

Exit mobile version