کالم

کیا ایسا ہو سکتا ہے

taiwar hussain

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں سیاست ایک بہت ہی سودمند کاروبار بن چکا ہے۔ لاکھ لگائیں اور کروڑوں کمائیں جو شخص سوزرکی کار خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا وہ پجارو گاڑی میں گارڈ کے ہمراہ گھومتا نظر آتا ہے۔ عزت شہرت اور دولت ان کے گھر کی باندی بنی ہوتی ہے آجکل کے دور میں جہاں دھنیے کی گڈی ستر روپے کی مل رہی ہو عام آدمی قرض تلے سسکیاں لے رہا ہو وہاں مٹھی بھر لوگ جنہیں اشرافیہ کہا جاتا ہے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی سیاسی ابتری کا شکار ہو گیا چار مارشل لا ءزکی پزیدائی کرنا پڑی، سول حکومتیں بنتی اور الوداع ہوتی رہیں ملک میں سیاسی طور پر استحکام قائم نہ ہو سکا۔ تھوڑی بہت معاشی ترقی ہونے لگی تو لوٹ مار کرنے والے بھیس بدل بدل کر دیہاڑیاں لگانے لگے غریب قوم غربت کی دلدل میں پھنستی چلی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ملک پر بنگلا دیش جو پاکستان سے الگ ہو کر دنیا کے نقشے پر ابھرا اس سے بھی مقابلے میں معاشی طورپر کمزور بن چکا ہے۔ مالیاتی ادارے جو غریب اور معاشی طور پر کمزور ملکوں کو ادھار دے دے کر چلاتے ہیں ان کے دیے ہوئے قرض میں اضافہ ہی ہوتا ہی جا رہا ہے اور آج ممالک ان مالیاتی اداروں کی ہدایت کے مطابق چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت ذخائر عطا فرما رکھے ہیں لیکن پچھتر سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ان ذخائر سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ مصلحتوں کی نظر میں رہ کر پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں اور پھر علاقائی حد بندیاں اپنا رونا روتی ہیں۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا ماحول بن چکا ہے جہاں امیر تو امیر تر بنتا جا رہا ہے اور غریب دن بدن غربت کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے کیا ان کا نصیب یہی ہے کہ یہ لوگ نسل در نسل غربت، افلاس کی زندگی گزارتے رہیں۔ ہم اسلامی ملک ہیں لیکن کونسا ایسا جرم ہے جو یہاں نہیں ہوتا ہم نے اسلام کے نام کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ فرعون بنا پھرتا ہے محاسبہ بھی بندے کے معیار اور معاشرتی حیثیت کو مدنظر رکھ کر ہوتا ہے۔ معاشرتی نا انصافیاں عروج پر ہیں بس یہی کہنا پڑ رہاہے کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ ہمارے ملک میں جس کے پاس دولت اور تعلقات ہوں اسکی زندگی بہت آسان ہے اور جو بے یارو مددگار ہو اسکے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل بلکہ یوں کہیے کہ وقت کے رحم و کرم پر شب و روز گزرتے ہیں۔اس وقت عام آدمی جن حالات سے گزر رہا ہے اسکی مثال پچھلے پچھتر سالوں میں نہیں ملتی دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ترین عمل ہوچکا ہے فیملی کی ضروریات کے ساتھ کچن چلانا دن بدن محال ہوتا جا رہا ہے بلکہ یوں کہیے کہ ہو چکا ہے ملازمت پیشہ افراد نے تو مہینے کے تیس دن گزارنے کے بعد پیسے کی شکل دیکھنا ہوتی ہے اور ایک ایک پیسہ سو بار سوچ کر خرچ ہوتا ہے ان کے دکھی دلوں سے حکمرانوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار نہیںہوتا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ہنڈیا میں ابال آئے بھی تو اپنے ہی پہلو¶ں کو جلاتی رہتی ہے اور اس کے بس میں اور ہوتاہی کیا ہے۔ معاشیات کے ماہرین کے قابل قدر تجزیئے غریبوں کے گھروں میں مہینے کا راشن تو نہیں ڈلوا سکتے لیکن وہ لوگ جو ملک چلانے کی زمہ داری قبول کیے ہوتے ہیں بدقسمتی سے ان کی باگ ڈور کہیں اروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے و ہ کٹھ پتلیوں کی طرح اشاروں پر چل رہے ہوتے ہیں اس وقت یہ حال ہے کہ مہینے بھر کے اخراجات چلانا مشکل ترین عمل بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے ” شہر دیاں باوآں دے چٹے کپڑے تے جیباں خالی” اب اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی سب شہر کے بابو بن چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں کا ادا کرنا ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا پھر ہر گھر میں بیماریوں کا ڈیرہ ہے ادویات پر جتنا خرچ ہوتا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بندہ کہاں جائے اور کیا کرے کس کے سامنے فریاد کرے فریاد کو سن کر اسکا مداوا کرنے والے خود مجبور ہیں صحیح معنوں میں حکومت معاشی مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اخبارات میں یہ خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں کہ حالات بہتری کی طرف چل پڑے ہیں کچھ ہی عرصے بعد مثبت معاشی پالیسیوں کے باعث اچھے نتائج موصول ہوں گے اور ملک کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی سیاسی جماعتوں نے اس وقت ملک کو متعدد گروپس میں تقسیم کر رکھا ہے ایک دوسرے سے نفرت برا بھلا کہنے کی روش پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ سیاسی جماعت ایک پروگرام کے تحت جلا¶ گھیرا¶ کرے ملک کی حفاظت کرنے والے اداروں سے ٹکرا¶ ہو ان کے خلاف نفرت بھری زبان استعمال میں لائی جائے ملک سے محبت کرنے اور اس پہ جان نثار کرنے والوں سے ٹکرا¶ ہو اس گھناﺅنے عمل میں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی دشمنوں کی کاوشیں بھی شامل ہوں گی دہشت گرد ملک کی بقاءاور سلامتی کےلئے مستقل خطرہ ہیں حال ہی میں متعدد فوجی ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ سرحدوں کے بجائے ملک کے اندر بھی جاری ہے۔حالات خطرناک روپ اختیار کر چکے ہیں اور حالات یہ بنے ہوئے ہیں کہ دشمن سامنے ہو تو اس کے ساتھ مقابلہ آسان ہوتا ہے لیکن منہ چھپا کرنقصان پہنچانے والے مٹھی بھر ایکٹیو ہیں انہیں صفحہ¾ ہستی سے مٹانابہت ضروری ہے اور وہ فنا ہو بھی رہے ہیں ۔ آئے دن کہیں نہ کہیں دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں ملک کی سلامتی پر مامور ادارے اپنے فرائض نہایت لگن اور ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں ۔ خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ قدرت کا انتقام بہت شدید ہوتا ہے اور مالکِ کائنات انہیں نشان عبرت بنا دیتا ہے وہ عوام سے اس دنیا میں بھی برا کہلواتے ہیں اور آخرت بھی ان کی خراب ہوگی ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے قوم کو متحد رہتے ہوئے چھپے ہوئے دشمنوں کی شرمناک حرکات سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے یہ گھٹیا فطرت والے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ ملک معرضِ وجود میں آیاکہ یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے اس کی جڑوں کو کمزور کرنے والے کبھی کامیاب و کامران نہیں ہو سکتے۔ مفاد پرست عناصر کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جونکوں کی طرح ملک کا خون چوسنا چھوڑ دیں۔ ذاتی مفادات کے حصول کےلئے ان کا ہر عمل وقت کی گرفت میں ضرور آنا شروع ہوگا وقت کسی کی مٹھی میں قید نہیں رہتا ایسے لوگ عبرت کا نشان بن کر تاریخ کی کتابوں میں سےاہ باب بن کر زندہ رہتے ہیں ۔حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام حکومت ہونا چاہیے اس طرز حکومت میں صدر کے ساتھ چھوٹی کابینہ بنائی جائے تاکہ ملکی مفاد میں معاشی اور سیاسی فیصلے کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے اخراجات کم سے کم کرنے کا احساس بھی موجود ہ ہو محاسبہ بھی جلد اور وقت ضائع کیے بغیر ہو، پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہونے کے بجائے ایک ایوان پر قائم ہو اسطرح اخراجات کم اور فیصلے ملکی مفادات میں جلد ہوں گے اچھی اور اعلیٰ تعلیم ملک کے ہر شہری کے لیے فراہم کی جائے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی پر بھی توجہ دی جائے تاکہ ان اداروں سے تعلیم حاصل کر کے جانے والے ملک اور قوم کا بہترین اثاثہ بنتے چلے جائیں ہم نے پچھتر سالوں میں نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی اب وقت کا تقاضہ ہے کہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیز میں نوجوان نسل کی کردار سازی کی طرف بھر پور توجہ دی جائے تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہو کر آنے والی نسل ملک و قوم کے لیے بہترین سرمایہ بنے۔ ایک مثالی معاشرہ اس وقت معرضِ وجود میں آ سکتا ہے جب افراد تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں قانون پر سختی سے عمل ہو شخصیت دیکھ کر قانون حرکت میں نہ آئے بلکہ جرم کی نوعیت کو محسوس کرتے ہوئے اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے قانون نافذ ہو۔معاشرہ مثالی اسوقت ہی بنتا ہے جب قانون کا نفاذ مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کیا جاتا ہو ۔ ہمارا معاشرہ اس وقت مثالی نہیں ہم دوسرے ممالک سے موازنہ کرتے رہتے ہیں لیکن ذمہ داری ان کی ہے جنہیں اقتدار اور اختیار حاصل ہے اور وہ ایک اچھا اور بہترین معاشرہ تشکیل دیں۔ اعلیٰ و ادنی نہ صرف قانون پر عمل پیرا ہوں بلکہ قانون شکنی کو ایک لعنت قرار دیں یہ ملک ہماری شناخت ہے اور ہمیں اس کی بقا اور ترقی کےلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ سادہ سی توقعات حقیقت کا روپ دھار لیںاور قومی زندگی آسان پروقار اور خوشحال ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے