کالم

ہم اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے

taiwar hussain

مجھے بچپن کازمانہ یاد آرہاہے جس میں معصومیت اور سادگی تو تھی لیکن تضع اور بناوٹ سے پاک تھا ، نہ کوئی خواہش ،نہ آرزو اور نہ ہی کوئی ڈیمانڈ ، گھر والے یعنی والدین جو کپڑے پہننے کو دیتے وہ پہن لئے جاتے اور جو نعمت کھانے میں میسر ہوتی وہ شکر کے ساتھ کھالی لی جاتی ، گھر کا ماحول یہ تھا گھر کا ماحول یہ تھا کہ صبح جب ہم سکول جانے کیلئے نیند سے بیدار ہوتے تو یہی دیکھتے کہ والد اور دادا مسجد صبح کی نماز کیلئے گئے ہوئے ہوتے اور والدہ دادی دونوں فجر کی نماز پٹھنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوتیں ، والدہ اس معمول سے فارغ ہوکر ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوجاتیں جبلہ والد صاحب اور داداد ا جان دونوں مسجد سے واپس آجاتے پھر قرآن پاک کی تلاوت کا ورد چلتا ، والد صاحب نے کیونکہ دفتر جانا ہوتا اس لئے وہ ناشتہ ہمارے ساتھ کرلیتے اور پھر وہ ہمیں اسکول چھوڑنے کے بعد دفتر جانے کیلئے روانہ ہوجاتے، ہم مین ہٹی مارٹن روڈ کراچی میں قیام پذیر تھے جو سرکاری ملازمین کی رہائش گا ہ کا اپر ایریا تھا ، وہاں روزانہ سرکاری بسیں کافی تعداد میں آتیں اور سرکاری ملازمین جو مہذب طریقے سے لائن بنائے کھڑے ہوتے ایک دوسرے کے پیچھے بس میں سوار ہوجاتے ، بسیں پھر بھر کے دفاتر کیلئے جو کہ چیف کورٹ بلڈنگ ، مسجد خضرا اور تغلق ہاو¿س میں واقع تھے روانہ ہوجاتے ،پینٹ قمیض یا شیروانی اور چھوٹے پانچے کے پاجاما میں ملبوس یہ ملازمین ذاتی سواریوں کے بغیر تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ تنخواہ اس سستے زمانے کی مطابقت میں تھی ، ضروریات زندگی احسن طریقے سے پوری ہوجائیں اس لئے ذاتی سواری کے بارے میں کم ہی لوگ سوچتے ، سچ کہوں تو ان کی آمدنی پورا مہینہ گزارنے کیلئے کافی ہوتی ، گھر کا ماحول بہت سادہ تھا گھر کے کمروں میں پیٹنگ پڑے ہوتے اور تین چار لکڑی کی کرسیاں جو کہ بیڈ سے بنی ہوتیں لکڑی کے میز کے ساتھ پڑی ہوتیں ، ہم سب گھر والے فرش پر دستر کوان بچھا کر اکھٹے کھانا کھاتے ۔ کھانے پر آنے سے پہلے بڑے اہتمام سے ہاتھ دھوئے جاتے ، پھر دستر خوان پر بیٹھا جاتا پہلے بڑے بیٹھتے اور ہم ان کے بعد سامنے بیٹھ کھانا کھاتے ، والدہ ہمیں پلیٹوں میں خود سالن ڈال کر دیتی لقمہ چھوٹا بناکر سالن سے لگاکر کھایا جاتا۔ لقمہ چباتے ہوئے منہ سے چپ چپ کی آواز پر والدہ ٹوکر دیتی اور منہ بند کرکے لقمہ آہستہ آہستہ چباکر کھانے کی تلقین کرتیں ۔ کھانے کے دوران اگر ہم بھائی ایک دوسرے سے بات کرنے کی کوشش کرتے تو کہا جاتا پہلے آرام سے کھانا کھالو پھر باتیں کرنا ، کھانے کے بعد ہاتھ صابن سے دھوئے جاتے اور تین چار بار پانی سے کلیاں کی جاتیں ، والدہ دھیان رکھتیںیہ عمل ہم کھانے کے بعد ضرور کریں ۔ اس بات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھی جائے اور کھانے کے بعد الحمد اللہ ،اللہ کا شکر ادا کرکے دسترخوان سے اٹھاجائے۔ ہم بھائی کھیلنے کیلئے جب کچھ وقت باہر جاتے تو مغرب کی اذان سے پہلے واپسی ضرور ی ہوتی ، جھوٹ بولنے پر سزا ملتی ، والد صاحب ہمیں خود پڑھاتے ، سکول کاکام باقاعدگی سے چیک ہوتا اور زبانی یاد کرنے والے مضامین یادکروائے جاتے ، اللہ کے فضل وکرم سے ہم بھائی ہمیشہ اچھے مارکس لیکر کامیاب ہوتے ،ٹیوشن پڑھنے کا رواج نہ تھا ، ہمارے دادا گھر میں اکثر درود تاج بلند آواز سے پڑھتے ، ان سے سن کر مجھے درود بچپن سے زبانی یاد ہوگیا جو اب تک حافظے میں محفوظ ہونے کی وجہ سے نماز اور تلاوت کے بعد پڑھنا میرا معمول ہے۔ہماری والدہ ہم بھائیوں کے پہنے والے کپڑے جو پاجامہ اور گول گلے کے کرتے پر مشتمل ہوتے گھر میں خود سلائی مشین پر سی کردیتیں، میں کالج اور یونیورسٹی لیول تک والدہ کے ہاتھ سے سیلا ہوا پاجامہ اور ڈوریے کا سفید کرتہ پہنتا رہا ، ہمیں کوئی کمپلیکس نہیںتھا سبھی ہم عمر اسی ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے ، زندگی میں رکھ رکھاو¿ تھا لیکن لچرین نہیں تھا۔ سادہ خوراک اور سادہ زندگی ،ہمارے گھر میں پائے اور نہاری بڑے اہتمام سے بنتی ،عزیز و اقارب جمع ہوتے اور سب ملکر اس پکوان سے لطف اندوز ہوتے ، ساری رات ہلکی آنچ پر والدہ اور گھر کی دیگر خواتین ان ڈشز کو تیار کرتیں ، تندوری روٹی کے ساتھ پائے اور نہاری بہت لطف دیتے ، حلیم بھی اسی انداز میں تیار ہوتا ، قریبی عزیز بہت اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے اور لطف اندوز ہوتے ۔ میں اپنے گھر میں خواتین کوکبھی ننگے سر نہیں دیھا ،ہمیشہ دوپٹہ اوڑھے ہوتین ، میری نانی اماںاور دادی جان اکثر سفید لباس میں ہوتیں اور ململ کا بڑا دوپٹہ ان کے سر پر ہوتا ، پان کھانے کی شوقین تھیںلیکن پاندان بہت صاف ستھرا اور لوازمات سے پرہوتا ،دادا ترکی ٹوپی اور شیر وانی میں ملبوس ہوتے ان کا رعب بہت تھا بچوں سے بہت پیار کرتے لیکن کبھی بے تکلف نہ ہوئے ، جب میں نے بی اے کیا تو کانووکیشن پر ہمارے گھر میں عید کا سماں تھا اور اسی طرح ایم اے کی ڈگری لینے پر بھی بڑی تقریب ہوئی ، وقت آہستہ آہستہ بدل گیا ، زندگی ضروریات کے ساتھ بودوباش بدل گئی ، ، اب نوجوان نسل مغربی دنیا کی پیروی میں ملوث ہے ۔ گھروں کے ماحول بدل چکے ہیں ، اکثریت نماز اور تلاوت قرآن پاک کی عادی نہیں رہی۔ موجودہ نسل نئی نئی نشہ آور ادویات کی ریسا ہے ، بڑے لوگوں کے گھروں کی تو بات ہی الگ ہے وہاں پابندی نام کی کسی چیز کی اہمیت نہیں ۔ سب کے حقوق ہیںجن کا احترام سب پر واجب ہے۔ہمارے ہاں تربیت کا احساس ختم ہوچکا ہے ، ہمیں اپنے گھروں میں اپنے انداز کا محاسبہ کرنا چاہیے ، اسلام جس کے ہم پیروکار ہیں اس پر ہم اپنی مرضی سے اپنی اپنی پسند کے پیوند لگارہے ہیں ، ہم اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے کیا ترقی یافتہ معاشرہ یہ ہوتا ہے کہ مادرپدر آزاد ہونے کو سراہا جائے ، سوچنے کا مقام آچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri