Site icon Daily Pakistan

ہم زندہ قوم ہیںپائند ہ قوم ہیں

سیلا ب کی تباہ کارویوں بارے گزشتہ کالم لکھتے ہوئے بہت غمگین او رپریشان تھا مجھے یہ دکھ کھائے جا رہا تھا کہ ابھی ہم کورنا جیسی موذی وبا سے نکلنے کے بعد سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ وقت سے پہلے بارہ تیرہ جماعتوں کی نئی آنے والی حکومت کی سنہری پالیسوں کے سبب عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑگئے تھے اور عام آدمی غربت بیرروزگاری افلاس اور منٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے معاشی مصیبتوں کا شکار تھا ۔ بجلی گیس پڑولم کی قیمتوں میں آئے روز کے اضافوں اور ان میں شامل تیرہ قسم کے ظالمانہ ٹیکسیوں نے راتوں کی نینداور دن کا آرام چھین رکھاتھا کہ اچانک ضرورت سے زیادہ بارشوں اور ان کے نتیجہ میں آنےوالے سیلابوں نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے کراچی سے لےکر شمالی علاقہ جات تک اپنی راہ میں آنے والی انسانی بستیوں چھوٹے بڑے شہروں کھیتوں کھلیانوں سبھی کو کچھ اسطرح سے تاراج کردیا تھا کہ ہر طرف آہ وپکار پڑ چکی تھی سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار چکے تھے اور ہزاروں مویشی لاکھوں کچے پکے مکانات صفحہ ہستی سے مت کر بربادی کا نشان بن چکے تھے اور لاکھوں سیلاب متاثریں سڑکوں پر پناہ لینے پر مجبور ہو چکے تھے میں گزشتہ کالم لکھتے ہوئے انہی خدشات وسوسات کا شکار تھا میں سوچ رہا تھا کہ حکمرانوں نے ان سیلاب متاثریں کےلئے وہ کچھ نہیں کیا جو کرنا چاہے تھا۔ وفاقی حکومت کے وفد کوئی کینڈا میں تھا تو کوئی قطر میں کوئی ترکیہ میں تھا تو کوئی کسی اور جگہ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ سیلاب کی خطرناکیاور وسیع پیمانے پر انسانی جان و مال کے نقصانات کی خبر سنتے ہی سبھی ملک کے اندر اپنے سیلاب زدگان کے ساتھ ہوتے مگر ایسانہیں تھا لیکن گزشتہ چند روز سے افواج پاکستان جو پہلے روز سے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکومشن پرموجود تھی نے شہروں میں متاثریں کےلئے جب کیمپ لگا کر امدادی سامان اور عطیات اکٹھا کرنا شروع کیا توبہت سی سماجی کاروباری تجارتی مذہبی اور دیگر تنظیمیں بھی راتوں رات کچھ اسطرح سے میدان میں اتری ہیں کہ اسوقت جماعت اسلامی ادارہ منہاج القرآن مسلم ہینڈ پاکستان کٹلری ایسوسی ایشن خالد مغل ، سرفراز گھمن فاسٹ کمپیوٹر زمرکزی جمعیت اہلحدیث وزیرآباد کے صحافی جبران بٹ، فلک شیر،یونس اکرم اور دیگر تیز رفتاری سے امداد ی سامان کے ٹرک لے کر چوٹی زرین ڈیرہ غازی خان اور دیگر متاثرہ علاقوں میں ہر گھر جا کر سامان تقسیم کرنے میں مصروف نظر آئے مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر اطمینان ہوا اور مزید اطمنان اس بات کا ہوا کہ دوکانداروں اور اداروں نے سیلاب زدگان کےلئے فنڈ جمع کرنے کیلئے جگہ جگہ انتظامات کر لئیے ہیں اور سوچنے لگا ہوں کہ پاکستانی جو زندہ قوم کہلاتے ہیں واقعی زندہ قوم ہیں اس موقع پر مجھے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی باتیں یاد آنے لگی جہنوں نے کہا تھا کہ عوام کو مصبیت کی اس گھڑی میں حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے مدد اپنے تحت ہمت کرکے اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کو بچانے کیلئے آگئے بڑھنا چاہے سراج الحق کہہ رہے تھے کہ عام آدمی ہی عام آدمی کے دکھ درد کو سمجھ سکتا ہے اور وہ نیکی کے اس کام میں نکلے گا بڑی سے بڑی تباہی اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی آسان ہوجائےگی ۔ سراج الحق صاحب نے بڑی پتے کی بات کی تھی کہ اگر حکومت میں موجود دس بڑے لوگ اپنے زکوٰة، خیرات نکال لےں تو ہمیں کسی غیر ملکی امداد کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے کہ سیاسی پارٹیاںاپنے سنیٹرز اور ممبران اسمبلی خرید کےلئے اگر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو اس سے بہت کم رقم میں سیلاب زدگان کو دوبارہ زندگی کی دوڑمیں واپس لانا آباد کرنا انکے لیے مشکل کام نہیں جب میں یہاں تک پہنچا ہوں تو مجھے کچھ ایسی پوسٹیں موصول ہوئی ہیں کہ جن میں بتایا جا رہا کہ پیشہ ور بھکاری سیلاب زدگان کا روپ دہارکر متاثر ہ علاقوںکی سڑکوں پر بسیرا کر چکے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر خیموں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ بعض تاجروں نے آٹا ، چاول ۔سبزیوں دالوں اور دیگر اشیا ءکی خورد و نوش کی قیمتوں کو بھی پر لگا دیا ہیں سیلاب ایک عذاب بن کر ہم پر نازل ہے لیکن سچی بات یہ ہے سیلاب کو عذاب بنانے میں ہمارے بعض حکمرانوں بعض آفسر اشرافیہ بعض سرکاری ٹھیکیدار وں کا ہاتھ ہے جو سڑکوں پلوں ڈیموں سیلابی گزرگاہوں وغیرہ میں گھپلے کرنے سے عذاب بنا رہے ہیں ٹھیک ہے کہ سیلابی ریلے بڑے طاقت ور تھے لیکن انگریز کے بنائے ہوئے پل سڑکوں ، ریلوے لائن اگر اج تک اپنے مدت پوری کرنے کے باوجود کھڑے ہیں تو ہمارے جدید الات مشینری اور ساز و سامان سے بنائے گئے یہ منصوبے کیوں پہلے ہی ریلے میں ریت کی دیوار سابت ہوئی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم اس لحاظ سے بد قسمت قوم ہیں کہ ہم پر راج کرنے والے ماضی کے تما م جمہوری اور نیم جمہوری حکمرانوں نے کالا باغ ڈیم پر اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے توجہ ہی نہیں دی اور ایک ایسا عالیشان منصوبہ جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتا تھا اسے افواہوںاور بے بنیاد خبروں کی زد میں لا کر راستے میں ہی چھو ڑ دیا گیا ہے بتایا جاتا ہے کہ ایوب دور میں جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو ایک برطانوی ٹیم اس کام کو دیکھنے کیلئے آئے انہوں نے سیٹلایٹ سنگلز کیلئے نوشہرہ کے مکانوں کی چھتوں کے قریب نشان لگائے اور ملک دشمن طاقتوں کو مفت کا بہانا مل گیا کہ اگر کال باغ ڈیم بنا تو نوشہرہ چار سدہ ، پبی ، مردان ڈو ب جائیں گے۔لیکن کسی نے سوچا ہی نہ کہ ڈیم اگر مکمل بھربھی جائے تو اسکی انچائی915 فٹ ہو گئی جب کہ نوشہرہ اور دیگر شہر وں کا زمینی اونچائی ڈیم سے کئی گنا اوپر ہے ۔ ماضی کی حکومتوں نے کبھی یہ بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کہ کال باغ ڈیم بننے سے سندھ کو40 لاکھ ایکڑ زیادہ پانی ملنے کے علاوہ لاکھوں ایکڑ بنجراراضی قابل کاشت ہوسکتی ہے ڈیم میں مچھلیاں چھوڑنے سے سندھ کو ماہی گری میں زبردست فائدہ ہونے کے علاوہ ملک کو 360 میگا واٹ سستی ترین بجلی اور ہر سال کوٹری بیراج کے راستے سمند ر میں جانےوالا 37 ملین ایکڑ فٹ پانی بھی محفوظ ہو سکتا ہے اور ملکی صنعت و تجارت زبردست ترقی بھی کرسکتے ہیں خیر آج و ہ تمام جماعتیں خوش قسمتی سے اقتدار میں ہیں انہیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ڈیم بنا کر ملک و قوم کیلئے تاریخی کارنامہ انجام دے کر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام سنہری لفظوں میںلکھواسکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ اب ہو جانا وقت کی ضرورت ہے ۔

Exit mobile version