کالم

یوم تکبیر اورگوجرانوالہ کالوہار

28 مئی وہ تاریخی دن ہے جب 1998 میں پاکستان نے بلوچستان کے چاغی کے مقام پر کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ دن نہ صرف پاکستان کی سائنسی اور دفاعی خودمختاری کا مظہر ہے بلکہ اس کے پیچھے دہائیوں کی انتھک محنت، قربانیوں اور بے مثال کرداروں کی داستان بھی پوشیدہ ہے۔ان کرداروں میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے، جنہیں بجا طور پر ”پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باپ” کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1 اپریل 1936 کو بھوپال، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد کراچی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے مغربی جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیم چلے گئے۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی میٹلرجیکل انجینئرنگ میں کی اور یورینیم افزودگی کی سینٹری فیوج ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی۔ یورینیم افزودگی ایک انتہائی پیچیدہ سائنسی عمل ہے جس کے ذریعے یورینیم کو اس حد تک خالص کیا جاتا ہے کہ اسے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی تھی جس پر بہت کم ممالک کو دسترس حاصل تھی اور اسے انتہائی خفیہ رکھا جاتا تھا۔1971 کی جنگ کے بعد جب پاکستان دولخت ہوا اور بھارت نے 1974 میں ایٹمی دھماکہ کیا تو پاکستان کے دفاعی حلقوں میں شدید تشویش پائی گئی۔ اس وقت پاکستان کو ایک ایسے وژنری رہنما کی ضرورت تھی جو اسے دفاعی طور پر مضبوط کر سکے۔ اسی دوران، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی خدمات پاکستان کو پیش کیں اور 1976 میں واپس وطن لوٹ آئے۔ انہوں نے اپنی سائنسی قابلیت، عزم اور محنت سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ایک نئی سمت دی۔انہوں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کی بنیاد رکھی اور اسے یورینیم افزودگی کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کر دیا۔ ان کی قیادت میں پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز نے دن رات کام کیا۔ یہ ایک ایسا مشکل اور چیلنجنگ کام تھا جہاں نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی اور ساز و سامان کی ضرورت تھی بلکہ اس پر بین الاقوامی سطح پر کڑی نگرانی بھی تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے بین الاقوامی پابندیوں اور مشکلات کے باوجود نہ صرف ضروری علم اور ٹیکنالوجی حاصل کی بلکہ اسے پاکستان میں مقامی سطح پر فروغ بھی دیا۔سینٹری فیوج ٹیکنالوجی ایٹمی پروگرام کا ایک بنیادی جزو ہے۔ یہ دراصل بہت تیز رفتار سے گھومنے والی مشینیں ہوتی ہیں جو یورینیم ہیکسا فلورائیڈ گیس سے ہلکے اور بھاری یورینیم آئسوٹوپس کو الگ کرتی ہیں۔ اس عمل کے ذریعے یورینیم-235 کی مقدار میں اضافہ کیا جاتا ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا اہم فیول ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس پیچیدہ ٹیکنالوجی کو پاکستان میں متعارف کرایا اور اس پر مہارت حاصل کی، جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ڈاکٹر خان نے اپنی کتابوں اور مضامین میں بارہا اس بات کا ذکر کیا کہ ایٹمی پروگرام کی تشکیل کوئی ایک فرد کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک قومی کوشش تھی۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے اراکین، فوج، اور مقامی صنعتوں کے تعاون کو ہمیشہ سراہا۔ ان کا وژن صرف ٹیکنالوجی درآمد کرنا نہیں تھا بلکہ اسے پاکستان میں جڑیں فراہم کرنا تھا تاکہ ملک مستقبل میں خود کفیل ہو سکے۔ ان کی خدمات نے پاکستان کو ایک ایسے وقت میں دفاعی خود مختاری عطا کی جب ملک کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق تھے۔ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی عزم، حب الوطنی اور قربانی کی مثال ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو پس پشت ڈال کر ملک کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان کی سائنسی بصیرت اور انتظامی صلاحیتوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر خطے میں امن اور استحکام کا ضامن بنایا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سائنسی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مقامی صنعت کا بھی ایک انتہائی اہم کردار ہے، خاص طور پر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک لوہار کا۔ گوجرانوالہ، جسے ”صنعتی شہر” اور ”پاکستان کے صنعتی دل” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اپنی دھاتی صنعت، انجینئرنگ کی مہارت، اور فا¶نڈری کے کام کے لیے مشہور ہے۔ یہاں چھوٹی اور درمیانے درجے کی ہزاروں صنعتیں موجود ہیں جو دھاتی مصنوعات، مشینری اور دیگر انجینئرنگ آلات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔جب پاکستان کو سینٹری فیوج کے انتہائی اہم اور حساس پرزے تیار کرنے کی ضرورت پیش آئی تو بین الاقوامی پابندیوں اور برآمدی کنٹرول کی وجہ سے انہیں بیرونی ممالک سے درآمد کرنا ناممکن تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے مقامی صلاحیتوں کی طرف دیکھا۔ یہیں پر گوجرانوالہ کے ایک ماہر لوہار کا کردار سامنے آیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی کتابوں اور مختلف انٹرویوز میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس لوہار نے سینٹری فیوج کے وہ انتہائی باریک اور پیچیدہ پرزے تیار کیے جن کے لیے غیر معمولی درستگی اور مہارت درکار تھی۔ یہ پرزے انتہائی خاص دھاتوں سے تیار کیے جانے تھے اور ان کی ساخت میں ملی میٹر کے ہزارویں حصے (مائیکرون لیول) تک کی درستگی کی ضرورت تھی۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ ایسے پرزوں کی تیاری کے لیے نہ صرف جدید مشینری کی ضرورت تھی بلکہ غیر معمولی انجینئرنگ کی مہارت اور دھاتوں کے خواص کی گہری سمجھ بھی درکار تھی۔ اس لوہار نے اپنی مہارت اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مشکل کام کو ممکن بنایا۔ انہوں نے دن رات کام کیا، تجربات کیے، اور بالآخر وہ مطلوبہ معیار اور درستگی کے ساتھ پرزے تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی جس نے ثابت کیا کہ پاکستانی کاریگر اور ہنرمند عالمی معیار کے انتہائی حساس اور پیچیدہ کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔اس لوہار کا کردار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں صرف سائنسی اداروں ہی کا نہیں بلکہ گمنام مقامی ہنرمندوں کی محنت اور لگن کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی خدمات اکثر پس پردہ رہتی ہیں، لیکن ان کا تعاون ایٹمی پروگرام کی کامیابی کے لیے ناگزیر تھا۔ یہ دراصل صنعتی خود انحصاری کی ایک بہترین مثال تھی، جس نے عالمی دبا¶ اور پابندیوں کے باوجود پاکستان کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دی۔28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے مقام پر اپنے ایٹمی دھماکے کیے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین لمحہ تھا۔ اس دن پاکستان دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ایٹمی قوت بن گیا۔ ان دھماکوں نے نہ صرف پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی برقرار رکھا۔یہ دن قوم کے اتحاد اور عزم کی علامت ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ایک قوم نے اپنے سائنسی ماہرین، انجینئرز، کارکنوں، اور ان گمنام ہنرمندوں کی مشترکہ کوششوں سے ناممکن کو ممکن بنایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت، ان کی ٹیم کی لگن، اور گوجرانوالہ کے اس ماہر لوہار سمیت دیگر پاکستانی ہنرمندوں کا کردار اس کامیابی کی بنیاد بنا۔ ایٹمی صلاحیت نے پاکستان کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کو بڑھایا اور اسے ایک مضبوط دفاعی پوزیشن عطا کی۔ یہ ایک ایسی ڈھال ہے جس نے پاکستان کو بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھا ہے اور خطے میں امن کا ضامن ہے ۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف ایک دفاعی کامیابی نہیں بلکہ یہ سائنسی ترقی اور خود انحصاری کا ایک روشن مظہر بھی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی سائنسدان اور انجینئرز کسی بھی بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پروگرام بیرونی امداد پر انحصار کیے بغیر مقامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مکمل کیا گیا۔ اس سے پاکستان کی سائنسی اور تکنیکی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور ملک کے اندر تحقیق و ترقی کے نئے دروازے کھلے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے نہ صرف دفاعی شعبہ مضبوط ہوا بلکہ اس کے پرامن استعمال مثلاً بجلی کی پیداوار، طب اور زراعت میں بھی فوائد حاصل ہوئے۔یوم تکبیر کے موقع پر ہم ان تمام گم نام ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر، عالمی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے، اور انتھک محنت سے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس قافلے کے سرخیل تھے جنہوں نے قوم کو ایک نئی پہچان دی۔یوم تکبیر ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان تمام نامعلوم ہیروز کی قربانیوں اور کاوشوں کو یاد دلاتا ہے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا۔ یہ ایک سائنسی معجزہ تھا جو پاکستانیوں کی محنت، ذہانت اور غیر متزلزل عزم کا نتیجہ تھا۔ گوجرانوالہ کے اس لوہار کا کردار اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اپنی مقامی صلاحیتوں پر بھروسہ کر کے بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے۔ یہ دن ہمیں مستقبل کےلئے بھی سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح اجتماعی کوششوں، درست قیادت اور مکمل عزم کے ساتھ قومیں ترقی کی منازل طے کر سکتی ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جب ایک قوم ایک مقصد کےلئے متحد ہو جائے تو کوئی بھی رکاوٹ اسے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ایک ایسا ورثہ ہے جس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے