کالم

یوم تکبیر اور پنجاب حکومت کے فلاحی اقدامات

یہ امر قابل ذکر ہے کہ یوم تکبیر کے موقع پر دیے گئے پیغام میںوزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ ایٹمی دھماکے پُرامن اور محفوظ پاکستان کی ضمانت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 27 سال گزر گئے مگر آج بھی پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہے اور بلند رہے گا۔ انشاللہ۔اسی تناظر میں مبصرین کے مطابق موجودہ دور میں جب پاکستان کو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسے میں قیادت کا وژن اور پالیسیوں کی شفافیت قوم کی سمت متعین کرتی ہے۔ اسی ضمن میں مریم نواز شریف، جو اس وقت پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں، نے اپنا منصب سنبھالتے ہی عملی طور پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ عوامی خدمت، سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسیوں کو ترجیح دیں گی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کی حالیہ دو نمایاں اسکیمیں، یعنی کسانوں کے لیے ”ٹریکٹر اسکیم” اور اقلیتوں کے لیے ”مائناریٹی کارڈ”، اسی عزم کی مظہر ہیں۔واضح رہے کہ پنجاب کو پاکستان کا ”زرعی دل” کہا جاتا ہے کیونکہ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے کیوں کہ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کا روزگار، طرزِ زندگی اور معیشت براہ راست کھیت کھلیان سے جڑی ہوئی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی قیمتوں میں اضافے نے چھوٹے اور متوسط درجے کے کسانوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مشینوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیداوار میں کمی، محنت میں اضافہ اور مالی مسائل جنم لیتے ہیں۔اسی سلسلے میں پنجاب حکومت نے ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع اور مدبرانہ اقدام اٹھایا، جس کا نام ہے ”ٹریکٹر اسکیم”۔یاد رہے کہ اس اسکیم کے تحت حکومت کسانوں کو سبسڈی کے ذریعے سستے داموں ٹریکٹر فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ اپنی زمین کو بہتر انداز میں کاشت کر سکیں۔ ابتدائی مرحلے میں دس ہزار سے زائد ٹریکٹر فراہم کیے جا رہے ہیں جن پر حکومت 50 فیصد تک مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔اس اسکیم کا بنیادی مقصد کسانوں کی مالی مشکلات میں کمی، زرعی پیداوار میں اضافہ، جدیدیت کو فروغ دینا اور دیہی معیشت کو مستحکم بنانا ہے۔اسی تناظر میں مریم نواز نے اسکیم کا افتتاح کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاہمارا کسان ہمارا محسن ہے۔ اگر وہ خوشحال ہوگا تو پنجاب خوشحال ہوگا۔ ہم صرف ٹریکٹر نہیں دے رہے، ہم کسانوں کو ترقی کا راستہ بھی دکھا رہے ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق یہ اسکیم محض مشینری کی فراہمی نہیں بلکہ ایک جامع زرعی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت کسانوں کی تربیت، قرضوں کی آسان شرائط اور فصل کی بروقت خریداری کے منصوبے بھی شامل ہیں۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق پاکستان ایک کثیرالمذاہب اور کثیرالثقافتی ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب اور عقائد کے افراد بستے ہیں اور آئینِ پاکستان اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ماضی میں اقلیتوں کو وہ توجہ اور سہولیات نہیں مل سکیں جن کے وہ حقدار تھے۔پنجاب حکومت نے اس خلا کو محسوس کرتے ہوئے اقلیتوں کے لیے ”مائناریٹی کارڈ” متعارف کرایا، جس کا مقصد اقلیتی برادریوں کو ریاستی سطح پر سہولتوں کی فراہمی اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔یاد رہے کہ اس کارڈ کے حامل افراد کو درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے جیسے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں مخصوص کوٹہ کے تحت داخلہ ، ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کے مواقع، مذہبی تہواروں اور تقریبات کے لیے مالی معاونت، صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کی سہولت، سرکاری ملازمتوں میں ترقی اور نمائندگی میں اضافہ،جیسی سہولیات شامل ہے ۔واضح رہے کہ یہ کارڈ نہ صرف اقلیتوں کو حکومتی سطح پر تسلیم شدہ بناتا ہے بلکہ انہیں معاشرتی سطح پر بھی ایک باوقار مقام دیتا ہے یوں اس اقدام کے ذریعے حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ یہاں بسنے والے ہر فرد کا ہے، چاہے وہ مسیحی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں اسکیموں نے عوامی سطح پر مثبت ردِعمل پیدا کیا ہے۔ کسان طبقہ، جو کئی دہائیوں سے حکومتوں کی نظراندازی کا شکار تھا، اب خود کو ریاستی پالیسیوں کا مرکز محسوس کر رہا ہے۔ ٹریکٹر اسکیم نے صرف زرعی سرگرمیوں میں بہتری نہیں لائی بلکہ دیہی علاقوں میں سیاسی شعور کو بھی اجاگر کیا ہے۔اسی طرح، اقلیتوں کے لیے مائناریٹی کارڈ نے ان کے دل میں اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ اس ملک کا اہم جزو ہیں۔ خاص طور پر نوجوان اقلیتی افراد میں تعلیم، ہنر اور روزگار کے لیے نئی امید پیدا ہوئی ہے۔تاہم، بعض سیاسی ناقدین ان اسکیموں کو محض انتخابی حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پالیسیز ووٹ بینک بڑھانے کا ذریعہ ہیں مگر حکومت کا م¶قف واضح ہے کہ یہ اقدامات وقتی سیاست کا حصہ نہیں بلکہ عوامی خدمت کی مستقل پالیسی کا تسلسل ہیں۔مبصرین کے مطابق مریم نواز کی ٹریکٹر اسکیم اور مائناریٹی کارڈ صرف دو الگ الگ منصوبے نہیں بلکہ ایک ایسی ہمہ گیر پالیسی کا حصہ ہیں جو پنجاب کو جدید، ہم آہنگ اور خوشحال صوبہ بنانے کی جانب پیش قدمی ہے۔ ان اسکیموں کے ذریعے حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ترقی صرف میٹرو منصوبوں یا سڑکوں کے جال بچھانے کا نام نہیں، بلکہ عوام کی زندگیوں میں عملی بہتری لانا اصل کامیابی ہے۔اگر یہ پالیسیز شفاف انداز میں جاری رہیں، کرپشن سے پاک طریقے سے نافذ کی جائیں اور عوامی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو یقیناً پنجاب ایک ایسا ماڈل صوبہ بنے گا جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب قیادت مخلص، وژن واضح اور جذبہ خدمت سے سرشار ہو، تو کوئی بھی قوم ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے۔ایسے میں توقع ہے کہ یوم تکبیر مناتے ہوئے قوم کے سبھی طبقات پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں کی خدمت کےلئے اپنی تمام توائیاں صرف کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے