البرٹ آئن سٹائن کو بلاشبہ دنیا کا سب سے ذہین سائنس دان تسلیم کیا جاتاہے جس کی تھیوری کشش ِ ثقل نے دنیا کو نئی جہتوںسے متعارف کروایا 18 اپریل 1955 ء کو امریکی ریاست نیوجرسی کے پرنسٹن اسپتال میں جب دنیا کے سب سے ذہین سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو کسی کوبھی اندازہ نہیں تھا کہ اسی دن ایک ایسا واقعہ ہونے والا ہے جو دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا۔ آئن سٹائن کی موت کے وقت اسپتال کے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر تھامس ہاروے نے پوسٹ مارٹم کے دوران ایک غیر معمولی قدم اٹھایا اور کمال مہارت سے خاموشی سے دنیا کے سب سے ذہین انسان کا دماغ نکال لیا یہ کوئی عام چوری نہیں تھی، بلکہ ایک سائنسدان کی دیوانگی تھی۔ ڈاکٹر ہاروے کا جنون صرف ایک سوال کے گرد گھوم رہا تھا کہ آخر’آئن سٹائن کیوںاور کیسے اتنا جینئس تھا؟ اس کے دماغ میں ایسی کیا خاص بات تھی جو باقی انسانوں سے مختلف تھی؟’ جب اسپتال انتظامیہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو تھامس ہاروے کو نوکری سے نکال دیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اْس نے دماغ واپس کرنے سے صاف انکار کردیا اور آئن سٹائن کے اہل خانہ کی اجازت کے بغیر چپکے چپکے کئی لوگوںکو چکمہ دے کر تھامس ہاروے دماغ کو اپنے ساتھ لے گیا کہاجاتاہے کہ 40 سال تک اس نے آئن سٹائن کا دماغ اپنے پاس رکھا، چوری کے 20 برس بعد آئن سٹائن کے بیٹے ہانس پرنس البرٹ سے اجازت ملنے پر ڈاکٹر تھامس ہاروے نے عظیم سائنس دان کے دماغ پر تحقیق شروع کی اور پھر اس نے دماغ کو کاٹ کر اس کے 170 ٹکڑے کردئیے۔ ان ٹکڑوں کو مخصوص کیمیکل میں محفوظ کیا اور پھر دنیا بھر کے نیورو سائنسدانوں کو ریسرچ کیلئے بھیج دیا۔ ڈاکٹر تھامس ہاروے نے زندگی کے آخری برسوں میں کئی جار اپنے ساتھ کار میں رکھے اور ملک بھر کا سفر کیا۔ وہ سائنسدانوں سے ملاقاتیں کرتے اور دماغ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تحفے کے طور پر دے دیتے تھے ۔ یوں ان کے کچھ حصے نجی کلیکشنز اور لیبارٹریز میں چلے گئے۔ مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ تحقیقات میں یہ پایا گیا کہ آئن سٹائن کے دماغ کے کچھ حصے عام انسانوں سے زیادہ چوڑے اور پیچیدہ تھے، خاص طور پر وہ حصے جو ریاضی، تجزیہ اور تخلیقی سوچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر تھامس ہاروے کی 2007 میں موت کے بعد اْن کے گھر سے دو بڑے جار ملے تھے جن میں آئن سٹائن کے دماغ کے باقی ماندہ حصے موجود تھے۔ یہ حصے بعد میں پرنسٹن اسپتال اور فِلاڈیلفیا کے مْٹر میوزیم کو دے دئیے گئے۔ آج انہی میں سے دو چھوٹے سلائیڈز پر رکھے ٹکڑے مْٹر میوزیم میں عام نمائش کیلئے رکھے ہیں، جنہیں آج بھی لوگ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ وہ دماغ ہے جس نے زمان و مکان کے قوانین بدل دئیے اور جس کی چوری نے سائنس کی دنیا کو ہمیشہ کیلئے بدل دیا جبکہ دماغ کے باقی حصے محفوظ مگر پبلک ایکسیس سے باہر ہیں، صرف چند ریسرچرز کو ان تک رسائی حاصل ہے۔کئی سائنسدانوں کا دعوےٰ ہے کہ نمجموعی طور پر دنیا بھر میں آئن سٹائن کے دماغ کے تقریباً 120 حصے اب بھی موجود ہیں، لیکن دماغ کے باقی حصے کہاں ہیں یہ آج بھی کوئی نہیں جانتا یہ بدستورمعمہ بناہواہے اس کے بارے میں درجنوں سائنس دانوں کی لیبارٹریز اور گھروں پر چھاپے بھی مارے جاچکے ہیں لیکن ہنوزاس کا پتہ نہیں چل سکا یعنی یہ تو وہی ہوا کہ مربھی سکون نہ پایا تو کدھرجائیں گے؟۔ بہرحال تاحال دنیا کے سامنے یہ بھی معلومات نہیں لائی جاسکیں کہ دنیا کے سب سے ذہین سائنس دان کے دماغ پر جو ریسرچ ہوئی ہے اس کا منطقی انجام کیاہوا؟کچھ سائنس دانوںکا کہناہے کہ جب تلک آئن سٹائن کے دماغ کے تمام حصے مکمل نہیں ملتے یہ ریسرچ ادھوری رہے گی۔

