کالم

آئیے عہد کریں

ناسازی طبع اوپر سے گرمی کا موسم ،، سیاسی اتھل پتھل اور دہشت گردوں کی وحشت سازیاں اعصاب کی شکستگی اور اضطراب قلب کا باعث بنتی رہیں۔ ماہ اگست نئے شگوفے پھوٹنے، ہری بھری گھاس کے نمودار ہونے کا موسم ہے، اسی ماہ آزادی کی خاطر بہت مسلمان شہید ہوئے بہت بچھڑ گئے۔ بہت سی آنکھوں میں شائد آج بھی اپنوں سے ملنے کی آس باقی ہو۔ وطن عزیز پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا بدلہ لینے کیلئے سینکڑوں مسلمان مردو زن کو تہہ تیغ کر کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں، مسلمان لڑکیوں کو بے آبرو کر کے نیزوں کی انیوں پر چڑھا دیا گیا لیکن ان کی مدد کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ سچ ہے غلامی اﷲ کی مخلوق کے فطری اور جبلی تقاضوں سے لگا نہیں کھاتی۔ یہی سبب رہا کہ حضرت انسان اپنی محبوب ترین شے یعنی متاع حیات بھی آزادی پر نچھاور کرتا رہا۔ مسلمانان ہندنے بھی دوہری غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے فقیدالمثال قربانیاں دیں۔ یہ خطہ اس لئے حاصل کیا گیا کہ یہاں عدلیہ آزاد ہو گی، سیاست آزاد ہو گی، آئین کی بالا دستی ہو گی لیکن افسوس گزشتہ برسوں میں اس آزاد مملکت کیلئے قائد اعظم کے راہ نما اصولوں سے محرومی ہی مقدر رہی۔ کہنے کو ہم ایک آزاد قوم ہیں ایک آزاد، خود مختار، مقتدر اور زندہ قوم۔ قدرت نے بھی ہمیں اپنی تمام تر نعمتوں سے نوازاہے دریا،پہاڑ،ریگستان، آبنائے، معدنیات، بہت اہم محل وقوع، جوہری توانائی کا حامل لیکن آزاد ہو کر بھی ہم ابھی تک خوئے غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ ہم سب کچھ لٹا کر بھی ابھی تک غلام ہیں۔ذاتی مصلحتوں پر قومی مفادات کی قربانی بھی غلامی کی ایک شکل ہے۔ہم نے دو قومی نظریہ سے منہ موڑ لیا۔ بانی پاکستان کا یہ ارشاد کہ ہم پاکستان اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسلام کے اصول حریت و اخوت اورمساوات کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں لیکن ہم نے اس کے برعکس آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی یعنی حصول مفاد کی آزادی اور نظم و ضبط سے آزادی ہی لیا۔ ہم ہمیشہ اپنی آزادی کے تہوار کو بے ہنگم شور موسیقی میں اپنی ناکامیوں کو چھپا کر مناتے رہے۔ آزادی یقیناً نعمت کبریٰ ہے اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے لیکن حصول آزادی کے صرف چوبیس سال بعد ہی وطن عزیز دو لخت ہو گیا۔ در اصل ہم اپنی آزادی کی حفاظت میں ناکام رہے۔ آج بھی پاکستان میں وزارت داخلہ پر ایف بی آئی اور وزارت خزانہ پر عالمی بنک اور آئی ایم ایف قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ آج کا تلخ سوال یہی ہے کہ آیا پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان بنانے کے عظیم مقاصد کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے ۔ آج بھی وطن عزیز کے باسی بے حساب محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز کا مراعات یافتہ طبقہ دولت کے ہر قسم کے وسائل پر پوری طرح قابض ہے۔ آج بھی کروڑوں کی تعداد میں یہاں کے باسی غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کو غربت، بیماری، بے روزگاری اور جہالت نے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ حکومتیں بنتی ہیں، ٹوٹتی ہیں مگر ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ان کے بچے تعلیم سے محروم اور ان کے علاج کیلئے علاج گاہیں نایاب ہیں۔ ہم تو غالب کے اس شعر کی مانند ہیں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
وطن عزیز کی ڈگمگاتی نائو فقط اﷲ کے بھروسے پر بے رحم تھپیڑوں کی زد میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا میں جو قومیں اپنے لئے کوئی لائحہ عمل، دستور اور منشور مرتب کر کے اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں وہی دنیا میں کامیاب اور سرخرو ہوتی ہیں۔1945 ء کی عالمی جنگ نے کوریا کا بد ترین حشر کیا لیکن آج وہ دنیا کی دس بڑی صنعتی قوتوں میں شامل ہے باوجود اس کے کہ اس ملک کے پاس کوئی معدنی دولت نہیں اس کی فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ جرمنی اور جاپان کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں ان قوموں نے زرعی استعداد نہ ہونے کے باوجود ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کر لی کہ ان کی معاشی صورتحال صنعت کی بنیادوں پرہے۔ چین جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا کیمونسٹ انقلاب کے وقت وہ بھارت سے بھی پسماندہ تھا مگر آج وہ دنیا کی تیسری بڑی عالمی قوت ہے۔ آزادی کے وقت ملائیشیا کی شناخت ٹن کی معدنیات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زیادہ غریب ممالک کی صف میں ہوتا تھا لیکن آج وہ جنوبی مشرقی ایشیا کا ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے۔ بھارت نے بھی جمہوری و اقتصادی لحاظ سے کچھ ترقی کر لی ہے لیکن مملکت خداداد پاکستان آج کس مقام پر کھڑی ہے۔۔؟ ہم تو ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا تعین ہی نہیں کر سکے۔ ہر دور میں ہماری تغیر پذیر پالیسیوں، الجھائو، تضادات، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے ہمارے فکرو شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ہم ہنوز اپنی آزادی کی بقاء اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جدوجہد میں مصروف ہیں ہم نے تو ہمیشہ جمہوریت کو پامال کیا سیاست کو قابل نفرت بنایا قومی مفاد ذاتی مفاد سے مقدم نہیں جانا بغض، حسد، صوبائیت، علاقائیت اور لسانیات کو پروان چڑھایا۔ مختلف جرائم کا قلع قمع نہیں بلکہ آبیاری کے سامان کئے، سماج میں امیر اور غریب میں تفاوت کو آسمان بنا دیا، دہشت وحشت اور تشدد کو شعار بنا لیا۔ آج اندھا دھند گولیاں، بم دھماکے اور خودکش بمبار معصوم اور بے گناہ انسانوں کو کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں، اب تو کوئی فرد خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔آج چودہ اگست کا دن ہم سے سوال کر رہا ہے کہ فلاح، خیر، انسانیت، بے تعصبی، نیکی اور وسیع النظری کب ہمارے سماج کا حصہ بنے گی؟ آزادی کی بقا کیلئے پاک فوج کی قربانیاں لازوال ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کی ملک دشمنوں سے جنگ میں پاک فوج اور دیگر شہادت پانے والوں کا جو لہو جو وطن کی آزادی قائم رکھنے میں بہہ رہا ہے ہم انہیں سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حقیقی جشن آزادی منانے کا مزہ اسی وقت آئے گا جب ہم من حیث القوم ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھیں گے اور باہمی احترام اور روا داری قائم کریں گے۔ آج چودہ اگست کا دن ہم سے متقاضی ہے کہ ہماری قیادتیں اور اشرافیہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں، اپنے اندرونی تضادات ذاتی اور وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملکی استحکام کیلئے آئین و قانون اور میرٹ کی بالا دستی کو ممکن بنائیں، ملکی تعمیر نو میں اپنا فعال کردار ادا کریں، 14اگست آزادی کایہ دن اسی تجدید عہد کا دن ہے اور اس کا پیغام اور سبق یہی ہے۔
دل نا امید نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی توہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے