کالم

آئی ایم ایف معاہدہ! معیشت

برطانوی حکومت سے آ زادی کے بعد ملکی معیشت کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے پاکستان کو 1950 میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ 1958 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد صدر ایوب خان آئی ایم ایف گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو ضیا الحق بے نظیر بھٹو نواز شریف پرویز مشرف اور عمران خان نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ دو ہزار انیس تک پاکستان آئی ایم ایف سے 22 مرتبہ قرضہ لے چکا تھا۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے غیر ضروری اخراجات کی وجہ سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف اپنی سخت ترین شرائط منوا کر قرضہ جاری کرتا ہے۔ مختلف شعبوں میں ٹیکسوں کے نفاذ کےلئے ڈکٹیٹ کرتا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کو انگریز نے آزادی تو دے دی لیکن ان ممالک کی معیشتوں کا کنٹرول آئی ایم ایف کی شکل میں اپنے پاس رکھا ہوا ہیے۔ آئی ایم ایف نے 2023 کا اسٹاف لیول معاہدہ بھی سخت شرائط پر سائن کیا جس کے مثبت اثرات پاکستان کی معیشت پر نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ڈالر نیچے کی طرف جا رہاہے روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے سٹہ بازوں نے ڈالر کو روک رکھا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ڈالر بہت اوپر جائے گا لیکن اب ڈالر بیچنا شروع کر دیا ہے بہت عرصے بعد اسٹاک ایکسچینج ہنڈرڈ انڈیکس میں بہتری کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی جریدے موڈیز نے لکھا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے معیشت بہتر ہوگی۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے معیشت میں ابھار پر قوم کو مبارکباد دی ہے۔ اور کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات میں مزید بہتری آئے گی۔ اسٹاف لیول معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کے اعلیٰ سطحی وفد نے اس معاہدے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا آئی ایم ایف حکام نے بتایا کہ پروگرام اس طرح تشکیل دیا گیاہے کہ نگران حکومت انتخابات بروقت کرا دے گی۔ شہباز شریف حکومت اپنے دور کے آخر میں بھی بہت سے مثبت اقدامات اٹھا رہی ہے۔لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا اس تقریب میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے کاشتکاری کے جدید ترین طریقے اپناتے ہوئے سبزیوں اور دیگر کیش کراپس کاشت ہوں گی۔ سعودی عرب سے دو ارب ڈالر حکومت کو موصول ہو چکے ہیں۔ یو اے ای ڈیڑھ ارب ڈالر ایشین ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے پچاس پچاس کروڑ ڈالر جلد مل جائیں گے۔آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے لیکن معاشی حالت ابھی تک غیر مستحکم ہے۔ اس معاہدے سے حکومت کو کچھ ریلیف ضرور ملا ہے اب مہنگائی کم کرنے بے روزگاری دور کرنے کےلئے اقدمات اٹھانے ہونگے۔ حکومت نے 2023 کے بجٹ میں وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف دیا ہیے اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پر بھاری ٹیکس بھی لگائے ہیں آنےوالے دنوں میں مہنگائی بڑھنے سے اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کے سخت دباﺅ کے باوجود حکومت نے اپنے دور کے آخری دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے عوام کو اچھا خاصا ریلیف دیا ہے پٹرول میں 9روپے لیٹر کم ہونے کی وجہ سے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک منتقل کیا ہے مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کےلئے یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اب ٹرانسپورٹروں کو بھی محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کرنی چاہیے۔ اس حکومتی اقدام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ حکومت 2011 کی اسکیم جاری رکھتے ہوئے زہین طلبہ کو لیب ٹاپ تقسیم کر رہی ہے۔ بڑی مشکل کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوا ہے اور حکومتی سطح پر اسے سراہا جا رہا ہے۔ خاص طور پر وزیراعظم شہباز شریف بہت خوش ہیں انہوں نے تازہ بیان میں کہا پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا لیکن ابھی مشکلات ہیں۔ حالیہ بجٹ میں مختلف ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا جس کا بوجھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود بڑھا دی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف معاہدے کی تعریف کرنے پر تنقید کی ہے۔ جب تک ہم اپنے غیر ضروری اخراجات کم نہیں کرتے بالا طبقات کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاتے ہم آئی ایم ایف کے محتاج رہیں گے۔ آج دنیا بھر میں معاشی جنگ لڑی جا رہی ہے اقتصادی طور پر مضبوط اقوام ہی یہ جنگ جیت سکتی ہیں چین اور امریکہ اس وقت آمنے سامنے ہیں۔ ہم اس وقت تک قرضوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک کفایت شعاری کی پالیسی نہیں اپنائی جاتی یہ عجیب رویہ ہے کہ ہر بار سخت فیصلوں کے نام پر عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے ۔ اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی اداروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو معاشرے کے مالی طور پر مضبوط اور امیر طبقات کو قربانی دینا ہو گی۔ ورنہ ایک سال بعد پھر آئی ایم ایف ہوگا اور اس کی شرائط۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے