کالم

آئی ایم ایف کی وہ ایک شرط

فیلڈمارشل صدر جنرل ایوب خان کے دور تک ہم کسی عالمی مالیاتی ادارے کے مقروض نہ تھے عام آدمی کی زندگی سادگی مگر سکون کے ساتھ گزر رہی تھی۔ہر طرف سر سبزی اور ہریالی تھی کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلتی تھیں اور لوگوں کو سرکاری آٹے کےلئے سرد موسم میں لائنیں لگانے اور سستا آٹا خریدتے ہوئے موت کو گلے لگانے والے اندوہناک بلکہ شرمناک واقعات کا وہم و گمان تک نہ تھا ۔ ایوب خان وردی تو فیلڈمارشل کی پہنتے تھے مگر ان کے سینہ میں بڑاانسان دوست اور پیار کرنےوالادل تھااوریہ امریت تھی۔اس آمریت میں جرائم کی شرح بھی کم تھی اور نوکریوں کیلئے دروازے بھی کھلے تھے۔ روپیہ بڑامضبوط تھااورسرکاری ادارے اورافسرا ن عام آدمی کی ترقی وخوشحالی کےلئے پالیسیاں بنانے میں مصروف ہوتے تھے ۔ بیوروکریسی میں بڑے بڑے ناموربڑے بڑے ذہین دماغ لوگ بیٹھے تھے جو صرف سرکاری آفیسر تھے کسی سیاسی جماعت کے کارندے نہیں تھے۔اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی بڑے اعلیٰ دماغ اور محب وطن نظریاتی اور مضبوط کردار کے لوگ تھے ۔ملکی خزانے کا یہ حال تھا کہ ہم کئی ممالک کو قرضہ دینے کی پوزیشن میں بھی تھے اورقومی ادارے بھی شاندارکارکردگی رکھتے تھے۔ٹی ٹیزمنی لانڈرنگ فالودے اورویلڈنگ والوں کے اکانٹس میں راتوں رات کروڑوں روپے بھی نہیں آتے تھے اور نہ ہی ہمارے سیاست دانوں اورافسروں کی بیرون ملک جائیدادیں تھیں۔سیاست میں تحمل برداشت رواداری اور خلاق تھا۔گالی گلوچ بریگیڈ بھی نہیں تھے اور نہ ایک دوسرے کی گندی فلمیں ہی بنتی تھیں ۔ مگر پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے پیٹ سے آمریت نکلتے اور آمریت کے بطن سے جمہوریت نکلتے نکلتے ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ خزانہ خالی ہے بیوروکریسی کے بہت سے افسران سیاسی جماعتوں کے الہ کاربن چکے ہیں اور ان سیاستدانوں کو دیکھتے دیکھتے ان افسران نے بھی بیرون ملک جائیدادیں،اکاﺅنٹس اور دیگر سلسلے بنا لئے ہیں اور اب نوبت یہاں پہنچی ہے کہ ہمیں قرضہ دینے والے عالمی مالیاتی ادارے نے ہمیں قرضہ دینے کےلئے جو شرائط رکھی ہیں ان میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسروں اور انکے اہلخانہ کے اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کی نہ صرف سال میں دو مرتبہ تفصیلات ہمیں جمع کرانی ہوں گی بلکہ متعلقہ اداروں کوشیئر بھی ہو سکیں گی ۔آپ اندازہ کریں کہ محض یہ ایک شرط دکھوں غموں مہنگائی بیروز گاری غربت اور افلاس کی دلدلوں میں پھنسے عام آدمی کو اسقدر پسند آئی ہے کہ لوگ عالمی مالیاتی ادارے کی تعریفیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ خبر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے اشتراک میں ملک میں سرکاری سطح پر شفافیت کیلئے وفاقی کابینہ کے منتخب اور غیر منتخب اراکین اور اہلخانہ کے اثاثوں اور اکاﺅنٹس کی بھی تفصیلات لے کرڈائریکٹری شائع کی جائے کی۔جبکہ بتایا یہ جاتا ہے کہ 2024 سے نئی آینٹی کرپشن سٹریٹجی پر عمل درآمد کا بھی امکان ہے۔جس سے سرکاری سطح پر اندرون و بیرون ملک خریداروں ٹھیکوں میں غیر ملکی کمپنیوں کو بڈنگ میں شریک کرنے اورسرکاری اخراجات میں شفافیت کیلئے ملکی وغیرملکی ماہرین پر مشتمل ٹاسک فورس قائم ہوگی جس کےلئے پاکستان نے آئی ایم ایف سے مشاورت مانگی ہے۔اسکے نتیجہ میں تین سالہ فریم ورک بنے گا جس پر عملدرآمد کےلئے پاکستان عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشیاانفراسٹرکچر بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے فنڈنگ مانگی ہے۔جبکہ کرپشن ٹیکس چوری اور مالی جرائم کیخلاف کاروائی کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کر دیا ہے۔وفاقی حکومت نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس سے تعاون حاصل کر لیا ہے اور بے نامی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے عدالتوں کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔کابینہ سے منظوری لے لی گئی ہے بے نامی ایکٹ فعال کرنے اور بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کےلئے عدالتی عمل جلد مکمل کرنے کےلئے ملک بھر میں ایڈجیو ڈیکسنگ اتھارٹیز بنانے اور ٹیکس چوری کرپشن اور مالی فراڈ میں ملوث افراد اور ملک میں آپریٹ کر رہے ملکی و غیر مکی گروہوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور بے نامی جائیدادوں کیخلاف کاروائی کیلئے کسٹمز، اینٹی نارکوٹکس فورس،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، ڈسٹرکٹ کوارڈنیشن،پراونشل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن،ڈسٹرکٹ کوارڈنیشن آفیسر ، ڈسٹرکٹ ریونیوآفیسر،سٹاک ایکسچینج، اسٹیٹ بنک سیکورٹیز اینڈایکسچینج کمیشن،سینٹرل ڈیپازٹری کمپنی،نیشنل کلیرنگ کمپنی پولیس ، سول آرمڈ فورسز سے بھی مدد لے سکیں گے ۔ اس ایکٹ کے تحت جو فرد کسی اور کی جائیداد اپنے نام رکھے گا تو ثبوت ملنے کی صورت میں اسے سزا ملے گی اور بے نامی جائیداد ضبط کرلی جائیگی جبکہ بے نامی جائیداد خفیہ مالک یاکسی اور فرد کے نام منتقل کی گئی تو یہ ٹرانزیکشن منسوخ تصور ہو گی۔سوچ رہا ہوں کہ اگر واقعی ان باتوں پر سختی سے عمل ہونا شروع ہو گیا تو بہت سی مالیاتی برائیوں اور رشوت کا بھی خاتمہ ہو گا اور ملک ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہو جائے گا۔جب میں یہاں تک پہنچا ہوں تو ایک اور خبر مجھے پڑھنے کےلئے ملی ہے جس مین یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ ایف بی آر کے تقریباً 70 فیصداہلکارٹیکس گوشوارے بنانے کا پرائیویٹ کام کر کے اپنی تنخواہوں سے ہزاروں گنازیادہ کما کر قومی ٹیکس کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں جس سے ٹیکس کلچراور اس کےلئے بنائی جانے والی پالیسیاں ہمیشہ نا کام رہتی ہیں۔کیا چیئرمین ایف بی آر ، وزیرخزانہ یا کوئی اورذمہ داراس سلسلے میں کوئی کارروائی کرے گا یا پھر آئی ایم ایف کو ہی ایسی کوئی شرط رکھنی پڑے گی کہ ایسے تمام گھر کے بھیدی چوروں کو محکمے سے نکال کر ٹیکس کولیکشن کو بڑھایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri