Site icon Daily Pakistan

آسٹریلیا کی صبح و شام کا جمالیاتی بیانیہ

جب مشرق کے کنارے سورج کی پہلی کرن زمین کو بوسہ دیتی ہے، تو آسٹریلیا کی سرزمین پر ایک ایسا منظر تخلیق پاتا ہے جو صرف بصری جمال نہیں، تہذیبی شعور اور فطری ہم آہنگی کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں دن کی روشنی وقت سے پہلے دستک دیتی ہے، اور جہاں کی صبحیں صرف طلوعِ آفتاب کا وقت نہیں بلکہ ایک مکمل تمدنی پیغام کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔آسٹریلیا کی صبحیں نظم، سادگی اور روحانی بیداری کا استعارہ ہیں۔ یہاں جاگنا محض جسمانی فعل نہیں، بلکہ ذہنی و قلبی بیداری کا ایک استعارہ ہے۔ قدرت سے قربت کا یہ عمل اس معاشرے کی فکری پختگی اور تہذیبی بصیرت کا مظہر ہے۔ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ طرزِ زندگی آسٹریلیا کو ان اقوام کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جو ترقی کو فطری اصولوں کے تابع مانتی ہیں۔گھروں کی ساخت میں قدرتی روشنی کی آمدورفت کو اس انداز سے شامل کیا جاتا ہے کہ سورج کی کرنیں محض دیواریں نہیں بلکہ دلوں کو بھی روشن کرتی ہیں۔ یہی روشنی آسٹریلیا کے طرزِ حیات کا مرکزی ستون ہے۔ یہاں دن کا آغاز ایک شعوری بیداری سے ہوتا ہے، اور وقت کی قدر زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ طرزِ حیات نہ صرف فرد کی سطح پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اس کے ثمرات نمایاں ہیں۔ قدرتی روشنی کا استعمال صرف فطری ہم آہنگی کا مظہر نہیں، بلکہ توانائی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کے پیش نظر ایک پائیدار حل بھی ہے۔ دن کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لا کر آسٹریلیا نے بجلی کی بچت کو نہ صرف ممکن بنایا ہے بلکہ اسے قومی پالیسیوں کا حصہ بھی قرار دیا ہے۔ کام کے اوقات میں وقت کی پابندی یہاں کا عمومی رویہ ہے۔ دفاتر، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز سب ایک ایسی ترتیب میں جڑے نظر آتے ہیں جس کا مرکز صرف کارکردگی نہیں بلکہ شعورِ وقت بھی ہے۔ یہاں وقت کا ضیاع محض انفرادی نقصان نہیں، بلکہ اجتماعی اقدار سے انحراف کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔صبح کے لمحات میں جو نظم، طہارت اور فکری یکسوئی نظر آتی ہے، وہی شام کو سکون، توازن اور خاندانی ہم آہنگی میں ڈھل جاتی ہے۔اگرچہ سڈنی، میلبورن اور پرتھ جیسے بڑے شہروں میں تفریحی سرگرمیاں موجود ہیں، لیکن یہ سرگرمیاں یورپ یا امریکہ کے ہنگامہ خیز کلچر کی نقل نہیں بلکہ ایک محدود، مہذب اور قانون کے تابع تفریح کی مثال ہیں۔آسٹریلیا کی راتیں پرسکون، متوازن اور خاندانی زندگی کی نمائندہ ہیں۔ یہاں رات کا مفہوم تفریح سے زیادہ خلوت اور آرام سے وابستہ ہے۔ نواحی علاقوں میں شام کے بعد کا ماحول سکوت اور سکون سے لبریز ہوتا ہے۔ خاندان کے ساتھ گزارا جانے والا وقت اس معاشرے کے اخلاقی اور سماجی توازن کا ضامن ہے ۔ خوراک کے باب میں بھی آسٹریلیا ایک رنگین فسوں رکھتا ہے۔ مقامی کھانوں کے ساتھ ساتھ ایشیائی، عربی، بھارتی، اور پاکستانی پکوانوں نے بھی آسٹریلوی ذوق کا حصہ بن کر اس معاشرے کو ثقافتی تنوع سے مزین کر دیا ہے۔ یہ تنوع صرف ذائقے کا نہیں بلکہ دلوں کا، ثقافتوں کا، اور اقوام کا ملاپ ہے۔یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ آسٹریلیا کی زندگی صبح کے نظم اور شام کے سکون سے ترتیب پاتی ہے۔ یہاں کی تہذیب اندھی ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں، بلکہ توازن، شعور، اور فطرت سے قربت کے اصولوں پر استوار ہے۔ گویا علامہ اقبال کے یہ اشعار یہاں کا عملی نقشہ پیش کرتے ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
لیکن آسٹریلیا کی صبح اور رات یہ سکھاتی ہیں کہ ان امتحانوں کو جیتنے کا پہلا زینہ نظم و ضبط، وقت کی قدر اور سکونِ قلب ہے۔یہی وہ طرزِ زیست ہے جو آسٹریلیا کو محض ترقی یافتہ ملک نہیں، بلکہ ایک تہذیبی نمونہ بنا دیتا ہیایک ایسا نمونہ جہاں ہر دن روشنی سے شروع ہوتا ہے، اور ہر رات سکون سے تمام ہوتی ہے۔ گویا یہاں کی زندگی قدرت کے نظم سے ہم آہنگ ایک حسین استعارہ ہے۔

Exit mobile version