اداریہ کالم

آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ

idaria

30 جنوری کو پشاور میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک دہشت گرد چیک پوسٹ سے گزرتا ہوا پولیس لائنز میں داخل ہوا اور مسجد میں جا پہنچا اور سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد پوری قوم اشک بار ہے اور سوال کرتی ہے کہ چند سال قبل ختم کی گئی دہشت گردی کے بعد یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور کیسے گزشتہ چند ہفتوں اور مہینوں میں صوبے میں دیگر اس کے واقعات رونما ہوئے۔ اس حوالے سے سیکیورٹی لیپسز کی تحقیقات ہونی چاہیے قوم اس وقت یہ سوچ رہی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پر کیسے قابو پایا جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، یہ وقت کی ضررورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت اور مذہبی زعما اپنے تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں، اس کی ذمے داری لیں، اس کا مقابلہ کریں۔اس ضمن میں ملک میں اہم سیاسی پیش رفت سامنے آئی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی، معاشی اور سیکورٹی صورتحال پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے پارٹی قائدین کو 7فروری کو ہونے والے آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کر لیا ہے، کانفرنس میں ملک کو درپیش چیلنجز، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اہم فیصلے متوقع ہیں، اے پی سی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے، وزیراعظم اگلے دن اے پی سی سے متعلق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لینگے۔ پی ٹی آئی کو دعوت دی گئی ہے پی ٹی آئی نے اصولی طور پر دعوت نامہ قبول کیا ہے ،وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کیا جس کا مقصد معاشی اور سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے حل تلاش کرنا ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا کہ وزیراعظم تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کے راستے تلاش کر سکیں۔ کانفرنس 7 فروری کو اسلام آباد میں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وفاقی وزیر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے اعلی رہنماوں بشمول سابق قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ آئندہ کے اجلاس میں شرکت کریں۔ دعوت ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی زیرقیادت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تقریبا تمام قومی مسائل پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے تاہم یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کو دہشت گردی کے شدید خطرے اور پریشان کن معاشی اور سیاسی حالات کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کے دو نمائندوں کو بھی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ، کمیٹی کے اجلاس کے دوران، تمام اسٹیک ہولڈرز پولیس، رینجرز، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اور دیگر شرکت کی اور اجلاس میں پشاور خودکش بم دھماکے، دہشت گردی خاتمے کے طریقوں اور پولیس اور انسداد دہشت گردی کے محکمے کی اپ گریڈیشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔یہ اجلاس خاصی اہمیت کا حامل رہا کیونکہ دہشت گردی کے معاملے میں حکومت کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلے ہی بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے شکار پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کیلئے ملک مخالف عناصر نے اپنی انسانیت دشمن سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت سے ہو رہا ہے جب سے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے۔ افغانستان کی سرزمین بری طرح پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے جبکہ بظاہر پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی کابل حکومت اسے روکنے کیلئے کچھ کرنے کی بجائے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ پولیس لائنز پشاور کی جامع مسجد میں عین نماز کے وقت خودکش دھماکہ اس سال اس سلسلے کا سب سے بڑا اور مجموعی طور پر دوسرا المناک ترین سانحہ ہے ، پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی اور وہ افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہو گئے تھے مگر کابل میں طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعدحالات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ گئے۔ کابل حکومت بار بار توجہ دلانے کے باوجود اپنی سرزمین سے ان کی سرگرمیاں روکنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔ پشاور کے اس بڑے سانحے کے علاوہ صوابی اور کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے میں بھی اسی روز دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت اور انٹیلی جنس ادارے نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد کرائیں۔ کابل حکومت کے متعلق سخت سفارتی پالیسی اپنائیں اور اس حوالے سے مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کریں۔
ملکی ذخائر اوربرآمدات میں مسلسل کمی
آئی ایم ایف کا بڑا وفد پاکستان میں اور انہو ں نئی اور سخت شرائط سامنے رکھ دی ہیں،جب کہ ملک معاشی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے اور مرکزی بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کی غیر معمولی کم ترین سطح کے قریب پہنچ گئے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے بعد 27جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 فیصد مزید کم ہو کر 3اب 9 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے جن سے بمشکل صرف 3ہفتوں سے بھی کم کی درآمدات کی ادائیگیاں ہو سکتی ہیں۔یہ ذخائر فروری 2014 کے بعد کم ترین سطح پر ہیں اور صرف 18 روز کی درآمدات کی ادائیگیاں پوری کرنے کے قابل ہیں جو 1998 کے بعد سے کم ترین مدت ہے، اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود ذخائر 5 ارب 65 کروڑ ڈالر رہے جس کے ساتھ ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب 74 کروڑ ڈالر رہ گئے۔اسی طرح ملک کی برآمدات میں کمی کا رجحان مسلسل 5 مہینے سے جاری ہے، جنوری میں سالانہ بنیادوں پر 15.42 فیصد کمی کے بعد 2ارب 21 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جس سے صنعتوں خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعتی یونٹس بند ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ جنوری میں ماہانہ بنیادوں پر برآمدات میں 4.41فیصد کی کمی ہوئی۔ رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی سے برآمدات میں منفی نمو شروع ہوئی جبکہ اگست میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، برآمدات میں تنزلی پریشان کن عنصر ہے جو ملک کے بیرونی کھاتوں میں توازن کے حوالے سے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، آئی ایم ایف کےساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دیگر پلیٹ فارمز سے بھی رقم ملنے میں مدد ملے گی۔حکومت نے منگل کے روز آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کی تاکہ معاشی بحران سے بچنے کےلئے7 ارب ڈالر کے بیل آٹ پیکج کو حاصل کیا جا سکے، 9 فروری تک جاری رہنے والی بات چیت کا مقصد آئی ایم ایف توسیعی فنڈ سہولت کے نویں جائزے کی تکمیل ہے، پروگرام کا مقصد ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے شکار ممالک کی مدد کرنا ہے۔حکومت کی معاشی پالیسی چند ماہ میں اتنی بری رہی کہ اب وزیرخزانہ نے جو سٹیٹ بنک کو مخیرحضرات سے ڈالر اکھٹے کی تجویز دی ہے وہ تکلیف دہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri