کالم

ابتدائی تعلیمی ڈھانچہ

انتخابی منشور۔

پہلی جماعت سے لےکر آٹھویں جماعت تک تعلیم ابتدائی یا ایلمنٹری ایجوکیشن کہلاتی ہے اس کا کل دورانیہ 8 سال ہوتا ہے جس میں پانچ سال پرائمری تعلیم اور تین سال مڈل درجے کے ہوتے ہیں تعلیم تو یہ اب درمیانی ہی ہے لیکن اب اسے ابتدائی تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یہ بہت پہلے سے طے شدہ تعلیمی منصوبوں کی تکمیل کا عمل ہے ملک میں شرح خواندگی بڑھانے اور تمام بچوں کے اسکول میں داخلہ لینے کےلئے حکومتی سطح پر کی اسکیموں کا اجراءکیا جاتا رہا ہے اس سلسلے میں مسجد سکول ، گراج سکول،دیہاتوں میں دہی ورکشاپ سکول،گنجان شہروں میں محلہ سکول اور مفت کتابیں فراہم کرنے کے پروگرام شامل ہیں ابتدائی تعلیم کےلئے پرائیویٹ سیکٹر میں بھی شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں مختلف سکول کام کر رہے ہیں ابتدائی تعلیم کسی بھی ملک کی شرح خواندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور بطور خاص پرائمری تعلیم کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ بچے کا تعلیم کے ساتھ پہلا تعارف ہوتا ہے اگر تعلیم کے حوالے سے بچے کا پہلا تاثر اچھا ہو تو اس کا تعلیمی سفر بڑا خوشگوار ہوتا ہے وہ بہت سی اہم باتیں ہنستے کھیلتے سیکھ جاتا ہے۔پرائمری تعلیم کے حوالے سے دو نکات بڑے اہم ہیں۔بچے کی نفسیات سے استاد کی باخبری اور استاد کا مکمل طور پر بہترین تربیت یافتہ ہونا۔ہمارے یہاں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد غیر تربیت یافتہ ہے۔ تعلیم کے سارے شعبے ہی اہم ہیں لیکن پرائمری تعلیم کی اہمیت سے سب واقف ہیں اور اس شعبے کو غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے حوالے کرنا تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔استاد چاہے خاتون ہو یا مرد اس کا باقاعدہ تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ہم آئے دن اخبارات میں بچوں کو دی جانے والی سزاﺅں کے حوالے سے پڑھتے رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ اساتذہ کی تربیت کا فقدان ہے انھیں یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کو کس طرح تعلیم کی طرف مائل کیا جاتا ہے ان کی دلچسپی کے میدان کیا ہیں بچوں کی ہم نصابی سرگرمیاں اتنی دلچسپ ہوں کہ وہ تعلیم میں دلچسپی لیں اوراپنے شوق سے تعلیم حاصل کریں سکول کے ماحول کو کس طرح خوشگوار رکھا جاسکتا ہے کہ ننھے طالب علم کے دماغ میں سکول سے ناغہ کرنے کا خیال ہی نہ آئے۔ اچھے اور خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ ایک تربیت یافتہ استاد اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر ہوتا ہے کہ اس نے بچوں کوابتدائی عمرمیں کیا پڑھانا ہے اور کس انداز سے پڑھانا ہے ماہرین متفق ہیں کہ معیار تعلیم کی بہتری کیلئے اساتذہ کا تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے استاد طلبہ کو صرف معلومات بہم نہیں پہنچاتا بلکہ ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کرتا ہے معلم کی محنت اور لگن طالب علم کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے ایک استاد کواپنے فن اور مضمون کا ماہر ہونا چاہیے اگر وہ طالب علم کی نفسیات، ضروریات،دلچسپیوں اور تقاضوں سے اچھی طرح آگاہ ہو تو پھر وہی تعلیمی عمل میں حقیقی روح پھونک سکتا ہےاور اس کی تدریس موثر تدریس کہلا سکتی ہے ورنہ تعلیمی عمل کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے گویا تعلیمی عمل کی کامیابی کا دارومدار استاد کے تجربے اور مہارت پر ہوتا ہے اسی طرح پانچویں جماعت تک بچے کی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرنے کےلئے اسے کن چیزوں کا سکھانا ضروری ہے۔اچھے استاد وہی ہوتے ہیں جو تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہوں یہ کلاس میں اپنا کردار بڑے موثر انداز سے ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حروف شناسی کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت کا دوسرا اہم مرحلہ اس کا پڑھنا اور لکھنا ہے صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا ایک اہم مرحلہ ہے بچے کے تلفظ پر توجہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے اگر شروع سے تلفظ درست ہوتو اس پر قائم ہونے والی عمارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتی ہے باہر کے ممالک میں ابتدائی کلاسوں میں پڑھانے کےلئے مقامی پی ایچ ڈی اساتذہ کا تعین کیا جاتا ہے ابتدائی کلاسوں میں باہر کے ممالک کے اساتذہ کا تعین نہیں کیا جاتا ہے اس خدشے کی بنا پر کہ کہیں ان کا تلفظ بگڑ نہ جائے لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ابتدائی کلاسوں کےلئے استاد کا تقرر کرتے ہوئے ہر گزاس کے لہجے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے موجودہ حکومت اس سلسلے میں کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن عملی تکمیل کے لئے ابھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ اسی طرح پرائمری کلاسوں میں ٹیسٹ کی تیاری کو بڑی اہمیت دیجاتی ہے بچوں کے ذہنی آبیاری کے لیے پیراگراف کو کاپی کروایا جاتا ہے یا پھر سوالات زبانی یاد کرنے کےلئے رٹے لگوائے جاتے ہیں یہ ساری باتیں تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہوتی ہیں اکثر بچے امتحان سے کچھ دن پہلے یہی کہتے ہیں کہ آج کل ہمیں استانی صاحبہ امتحان کی تیاری کروارہی ہیں ہم سے روز ٹیسٹ لیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی تعلیم و تربیت سے بچے امتحان تو پاس کرلیتے ہیں لیکن ان کی تعلیمی استعداد میں اضافہ نہیں ہوتا اس قسم کی کلاس کو آپ ایک غیر موثر کلاس کہہ سکتے ہیں۔ ایک اچھی اور موثر کلاس وہ ہوتی ہے جس میں بچے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی مشق کرتے ہیں ان کے صحیح تلفظ پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے وہ ہر روز نت نئے الفاظ سیکھتے ہیں اس طرح ان کے ذخیرہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہتا ہے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چھوٹی کلاسوں میں بچوں کو ان کی منشا کے مطابق مطالعے کی عادت ڈالی جائے نصاب کی کتابوں تک ان کا مطالعہ محدود نہیں ہونا چاہیے اگر چھوٹی عمر میں وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھتے ہیں تو ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ہمارے یہاں تو یہ تصور ہی نہیں ہے جو کتاب نصاب میں شامل ہے بچے اسے بھی پورے سال میں ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ پاتے ایک سبق کو طوطے کی طرح پڑھ لینے کے بعد اس کے آخر میں دیے گئے مشقی سوالات حل کروادیے جاتے ہیں جنھیں بچہ زبانی یاد کرلیتا ہے پھر سالانہ امتحانات میں بچے کی تعلیمی استعداد انھی سوالات کے درست جوابات لکھنے پرپرکھی جاتی ہے یہ ایک روٹین کا عمل ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے اس قسم کی تعلیمی سرگرمی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کوپنپنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور وہ ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ رچرڈ ایلنگٹن ایک جانے پہچانے ماہر تعلیم ہیں بین الاقوامی معیار کے حامل تعلیمی رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں یہ ایک اچھی اور موثر کلاس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلاس میں بچے کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیا جائے اگر وہ تلفظ کی غلطی کرتا ہے تو اسی وقت اس کی غلطی بڑے پیار سے درست کی جائے اسے بار بار وہ لفظ پڑھا یا جائے اسی طرح جب کلاس میں ایک پیراگراف سب بچے مل کر پڑھ لیں تو پھر اس پیراگراف پر ایک جامع مباحثہ ہونا چاہیے جس میں ہر بچے کو بولنے کا پورا پورا موقع دیا جائے استاد کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ کلاس میں طلبہ کے سامنے نت نئے سوالات اٹھائے تاکہ طلبہ کو سوچنے کا موقع ملے۔جب کلاس کا ہر بچہ پیراگراف پر آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو اس دوران وہ بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے اس کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھ رہا ہوتا ہے ایک اچھی کلاس وہ ہوتی ہے جس میں طلبہ زیادہ سے زیادہ بولتے ہیں انھیں زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے کہتے ہیں ایک معیاری کلاس وہ ہوتی ہے جس میں طلبہ کے بولنے کی شرح 80فی صد ہے ہمارے بچے اکثر ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور ان کے بولنے کی صلاحیت ہمیشہ زنگ آلود رہتی ہے حالانکہ بولنے کی طاقت قرآن کے مطابق علمہ البیان کے زمرے میں آتی ہے اور یہی طاقت اسے دوسری مخلوقات میں ممیز کرتی ہے بیان کی صفت بھی صرف انسان کے ساتھ مخصوص ہے تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس کا مقصد فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود ہے اس میں معاشرتی روایات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح اور ترقی بھی شامل ہے یہ ترقی اسی وقت ممکن ہے جب افراد تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاشرتی زندگی کی تشکیل میں اپنا مخصوص کردار ادا کرنے لگتے ہیں معاشرے کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کی تعمیر میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں تعلیم کے ذریعے فردمیں تحقیق و جستجو اور تخلیق کے جذبات ابھارے جائیں تو تعلیم یافتہ افراد ثقافت اور معاشرت کی تشکیل نو کے کام کو زیادہ احسن طریقے سے ادا کر سکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri