کالم

ابنِ خلدون کی دنیا اور پاکستان

ابنِ خلدون چودہویں صدی کا وہ حیرت انگیز مسلمان مفکر تھا جسکی فکری بلندی نے انسانی تاریخ کی سمت بدل دی۔ 1332 میں تیونس میں پیدا ہونے والا یہ نابغہ صرف مورخ نہیں تھا وہ قاضی،سفارتکار، فلسفی،ماہرِ معاشیات، سیاسی تجزیہ نگار اور سماجی علوم کا بانی تھا عرب دنیا کی علمی روایت، اسلامی بصیرت اور اسکے اپنے مشاہدے کی سچائی نے مل کر ایک ایسا بے مثال ذہن تشکیل دیا جو اپنے زمانے سے کئی صدیوں آگے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی لازوال کتاب مقدمہ آج بھی دنیا کی پہلی سوشل سائنس کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ابنِ خلدون اپنے عمل، دیانت، تحقیق اور کردار سے ثابت کرتا ہے کہ وہ صرف ایک عالم نہیں بلکہ ایک باشعور، متوازن اور انتہائی باکردار مسلمان تھا اسی لیے اس کی تحریریں وقت کی گرد سے محفوظ رہیں۔اس نے بتایا کہ ریاست کی اصل طاقت عصبیت میں ہے، یعنی ایک قوم کا اتحاد، مشترکہ مقصد، اجتماعی غیرت اور ایک دوسرے کیلئے ڈٹ جانے کا جذبہ۔ پاکستان کی بنیاد بھی اسی اصول پر رکھی گئی تھی۔ متحدہ مسلم قوم نے ایک مقصد کیلئے اٹھ کر قربانیاں دیں اور پھر ایک نئی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ذاتی مفاد، سیاسی تقسیم، گروہی دشمنیاں اور باہمی بداعتمادی نے اس عصبیت کو کمزور کر دیا۔ابنِ خلدون خبردار کرتا ہے کہ قومیں تلواروں سے نہیں ٹوٹتیں وہ اندرونی کمزوریوں سے بکھرتی ہیں، جب مقصد ذات کی دیواروں میں دم توڑ دے۔ابنِ خلدون کے مطابق ریاستیں عروج، استحکام اور زوال کے ایک تاریخی دائرے میں سفر کرتی ہیں۔ ابتدا سختی، ایثار اور عزم کا زمانہ ہوتا ہے پھر آسائشیں بڑھتی ہیں، حکمران آرام طلب ہو جاتے ہیں، ادارے کمزور پڑتے ہیں اور نتیجے میں ریاست کا وجود اندر سے کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کو اس پیمانے پر پرکھیں تو ساری کہانی واضح ہو جاتی ہے۔ ابتدائی برسوں کا اخلاص، قربانی اور متحد قیادت پھر رفتہ رفتہ ذاتی مفاد کی سیاست، اداروں کا کمزور ہونا، اور عوام میں اعتماد کا ٹوٹ جانا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابنِ خلدون پاکستان کے حالات پڑھ کر نہیں بلکہ انہیں دیکھ کر لکھ رہا تھا۔معیشت کے بارے میں اس کی بصیرت آج بھی حیران کن ہے۔ اس کے مطابق زیادہ ٹیکس تجارت کو مفلوج کر دیتے ہیں، سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات اسی اصول کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہیں۔ کاروبار دبا کا شکار، پالیسیوں میں عدم استحکام، اور ریاست کا بھاری بوجھ عوام پر منتقل یہ سب ابنِ خلدون کے معاشی اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ کہتا تھا کہ معیشت کو طاقت سے نہیں، اعتماد سے چلایا جاتا ہے انصاف، آسانیاں اور سرمایہ کار کیلئے محفوظ ماحول پیدا ہو تو معیشت خود دوڑنے لگتی ہے۔
ریاست کے کمزور ہونے کی ایک اور وجہ ابنِ خلدون کے مطابق وہ ہوتی ہے جب حکمران طبقہ عوام سے دور ہو جائے، اقتدار چند خاندانوں تک محدود رہے، اور قانون کمزور جبکہ ذاتی طاقت مضبوط ہو جائے۔ آج پاکستان کا سیاسی بحران اسی تاریخی حقیقت کا عکاس ہے۔ اصل مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں، سیاست ذاتی انا کا میدان بن گئی ہے، اور ریاستی ادارے اپنے بنیادی مقصد سے بھٹکتے محسوس ہوتے ہیں۔اخلاقی زوال کو وہ کسی قوم کے خاتمے کی سب سے اہم
علامت قرار دیتا ہے۔ جب جھوٹ معمول بن جائے، بدعنوانی ذہانت سمجھی جائے، نااہل آگے اور اہل پیچھے ہو جائیں، انصاف کمزور ہو اور اصول پس منظر میں دھکیل دئیے جائیں تو قومیں خود اپنے لیے تباہی کا سامان کرتی ہیں۔ پاکستان میں یہ اخلاقی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تنزلی کو پہچانیں اور اسے روکنے کی کوشش کریں۔اب سوال یہ ہے کہ ابنِ خلدون نے اسلامی دنیا میں کہاں کہاں اپنے نقوش چھوڑے؟وہ صرف نظریاتی مفکر نہیں تھا وہ عملی سیاست میں بھی شامل رہا۔ مراکش، غرناطہ، تیونس، الجزائر اور مصر میں اس نے قاضی، مشیر، سفارت کار اور استاد کے طور پر خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر مصر میں سلطان الظاہر برقوق نے اسے قاضی القضا کے منصب پر فائز کیا، جو اس کے علم، عدل اور کردار کی بلند ترین قدر دانی تھی۔ مرینی، حفصی اور مملوک سلطنتوں میں اس کی حکمت عملی، عدل کے اصول اور ریاستی مشوروں نے براہ راست اثر ڈالا۔ اسلامی دنیا میں جہاں بھی ادارہ سازی، انصاف، یا مضبوط سیاسی نظم کی بات ہوتی ہے وہاں ابنِ خلدون کے نظریات کی بو محسوس ہوتی ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مغرب نے ابنِ خلدون سے وہ سب کچھ سیکھ لیا جو ہم نے نظر انداز کر دیا۔
یورپ کے بڑے مفکرین نے اسکی کتاب مقدمہ کو جدید سماجیات، سیاسیات اور معاشیات کی بنیاد بنایا۔ مغرب نے اس سے اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی، شفاف معیشت، قومی اتحاد اور انصاف کا وہ فلسفہ سیکھا جس نے انہیں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ مسلمان اس ذہنی خزانے کے وارث تھے مگر فائدہ مغرب نے اٹھایا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔پاکستان ابنِ خلدون سے اگر صرف ایک سبق بھی لے لے تو وہ یہ ہوگا کہ قومیں خوابوں سے نہیں اصولوں، فیصلوں اور مضبوط اداروں سے بنتی ہیں۔ انصاف، اتحاد، سچی قیادت، محفوظ معیشت اور شفاف نظام یہ وہ ستون ہیں جو کسی بھی ریاست کو دوبارہ کھڑا کر سکتے ہیں۔آج پاکستان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ آگے بڑھنا ہے یا تنزلی کا سفر جاری رکھنا ہے۔ تاریخ کبھی مجبور نہیں کرتی یہ انتباہ ضرور کرتی ہے۔ اگر قوم جاگ جائے تو راستے بدل جاتے ہیں، منزلیں نئے سرے سے ابھرتی ہیں، اور مقدر نئے انداز سے لکھا جاتا ہے۔
جو قطرہ ڈر کے رکتا ہے، سمندر بن نہیں سکتا
اندھیروں سے جو کھیلیں، وہی جگنو نہیں رہتے
نہیں ہے ناامیدی کی جگہ دل کے نگر میں
چراغ پھر جلیں گے، بس ارادے چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے