ابو انصر ابن ترخان اُزلغ الفارابی873ءمیں دریائے سیحوں اور دریائے جیجوں ترکستان کے مشہور فاراب کے ایک گاﺅں وسیج میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد محمد بن ازلخ ساسانی فوج میں ملازم تھے۔ اُن کا اصل وطن تو ترکی تھا لیکن یہ ایرانی النسل تھے۔ فارابی کے دادا ترخان نے اسلام قبول کرنے کے بعد فاراب میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ فارابی نے ابتدائی تعلیم فاراب اور بخارا میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بغداد کا رُخ کیا۔ اُس زمانے میں بغداد دنیا بھر میں اسلامی علوم و فنون کا مرکز مانا جاتا تھا۔ بغداد میںچالیس برس رہے۔ مورّخین کا کہنا کہ فارابی نے مسیحی اُستاد یوحنا حیلان سے تعلیم حاصل کی۔ یخیییٰ ابن عدی کے شاگرد سجستانی لکھتے ہیں کہ” یخییٰ ابن عدی نے اس کو خبر دی کہ متی ابوالبشر نے ارسطو کی کتابیں ”ایسا غوجی“ ایک مسیحی اُستاد سے پڑھی اور قاطیغوریاس( یعنی معقولات) اور ”بارمیناس “ یعنی( عبارت) ایک دوسرے اُستاد روبیل نامی سے اور”کتاب قیاس“ کی تکمیل ابن یخیی ٰمروزی کے پاس کی۔فارابی عربی، فارسی، ترکی،یونانی اور سریانی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ کہا جاتا کہ فارابی ستر زبانیں آتی تھیں۔ بکلس اپنی کتاب” تاریخ ادبِ عربی“ میں رقم تراض ہے کہ:۔ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں حکمائے عرب دو فرقوں میں منقسم ہو گئے تھے۔ ایک تو متکلمیں(مشائین) کا گروہ تھا۔ کندی(ابن باسحٰق الکندی) کی ایک بڑی فضیلت کے ساتھ شغف تھا اور جس کا ظہور مرہ میں ہوا تھا۔ اس تفریق سے قبل یہ لوگ فیثا غورث کے مقلد تھے، لیکن ایک زمانے کے بعد انہوں نے فیثا غورث اور اُس کے متبعین سے علیحدگی اختیار کر لی اور ارسطوکے ہمنوا ہو گئے۔ مگر یہ اُس وقت ہوا جب ارسطو کی تعلیمات پر نو افلا طونیت کا خاصا رنگ چڑھ گیا تھا۔ اُس کے مباحث مادی اشیاءمعنی، فکر اور روح ہوتے تھے، اور خدائے تعالیٰ کو تخلیق میں حکمت کی وجہ سے ،یا بحیثیت علت اولیٰ کے نہیں ثابت کرتے تھے۔ بلکہ اِس حیثیٹ سے خدا واجب الوجود ہے اور تمام اشیاءمیں کے وجود سے موجود ہوتی ہیں۔یہ لوگ سب سے پہلے اسی کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ فارابی اس فرقے کا سربراہ تھا، چناچہ یہ سب اسی کی طرف روجوع کرتے اور اسی پر اعتماد رکھتے تھے“ دوسرا فرقہ فلاسفہ طبیعیہ کا تھا اس کا ظہور بصرے اور طہران میں ہوا۔ اس کے مباحث مادی، محسوس،طبیعی ظواہر تک معدود تھے، مثلاًتخطیط بلدان اور قبائل کے حالات اس کے بعد انہوں نے ترقی کی، لیکن ان کی نظر اس اثر تک پہنچی جو اشیاءعالمِ محسوسات میں پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو موضوع بحث نفس، روح اور قوت الہٰیہ ٹھہرے اور اس قوت کو انہوں نے ” علتِ اولیٰ“یا ” خالقِ حکیم“ کے نام سے موسوم کیا جس کی حکمت تمام مخلوقات میں نمایاں ہے۔ ابوبکر محمد بن زکریہ رازی اسی فرقے کا سربراہ تھا۔ وہ ایک طبیب حاذق اور طبیعی فلسفی تھا۔فارابی اپنے زمانے کے ایک بڑے فلسفیانہ حلقے کے پیشوا تھے۔ فاربی سے کسی نے پوچھا کی تمھاری علمیت زیادہ ہے یا ارسطوکی؟ جواب دیا:۔” اگر میں اُس زمانے میں ہوتا تو اُس کے ممتاز شاگردوں میں میرا شمار ہوتا“اور کہاکہ میں نے رسطو کی ”کتاب سماع“ کو چالیس مرتبہ پڑھا ہے اور ابھی ان کو پڑھنے کی ضرورت محسوص کرتا ہوں۔ فارابی نے ارسطو کی کتابوں کے حفاظت کی۔ اس کے جتنے بھی تلامذہ ہم درس اور احباب تھے وہ تمام ارسطو کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کر رہے تھے۔اسی وجہ سے فارابی کا نام” معلمِ ثانی“ رکھا گیا۔ اس کو ”ارسطاطالیس عرب“ بھی کہتے ہیں۔فارابی فن منطق میں تمام فلسفیوں سے بازی لے گئے تھے۔ ایران نے فارابی کی تصویر والا ٹکٹ بھی جاری کیا۔ ایران نے فارابی کی خدمات کے اعتراف میں کرنسی نوٹ بھی جاری کیا۔ فارابی کی چند کتابیں جو عربی میں دستیاب ہے۔1۔ التوفیق بین رائی الحکمین افلاطون و ارسطو۔2۔قیما ینبغی الا طلاع علیہ قبل قراة ارسطو۔3۔ فصول المائل ۔4۔ رسالة فی المنطق فی شرائط الیقین ۔5۔ رسالة فی القیاس، فصول یحتاج الیہافی صناعة المنطق۔ 6۔رسالة فی ماہیت الروح۔ان کی تالیفات اس وقت تک بھی باقی ہیں۔ فارابی کی تقریباٍ12 کتابیں منطق پر ہیں۔ یہ کتابی یورپ کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ان کی 8 کتابیں سیاسیات اور ادب پر بھی ہیں۔ وہ یہ ہیں ۔1۔ مبادی آراءاہل مدینہ الفاضلہ۔2۔ احصاءالعلوم۔3۔ السیاسة المدینہ۔4۔نو(9) کتابیں ریاضیات،کیمیا اور موسیقی پر ہیں۔5۔ ان کے علاوہ نو(9) کتابیں تالیفات مختلف مقامات میںپائی جاتی ہیں۔فارابی کی شاہکار کتابیں وہ ہیںجو اُس نے ارسطو کے فلسفے کی تعریف، تشریع اور تفسیر کے لیے مخصوص ہیں۔اس پر ان کو” معلم ثانی“ لا لقب دیا گیاہے۔فارابی کی ایک کتاب” احصاءلعلوم“ ہے۔ ابنِ سعد نے اس کتاب کو احصائے علوم اور ان کے اعراض کی تعریف میں ایک بلند پایہ کتاب کہا ہے۔فارابی نے کہا کہ وہی افراد کمال کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں جو نہایت ذکی اور عقلِ فعال سے متاثر ہونے کے قدرت رکھتے ہیں۔قفطی نے لکھا ہے کہ فارابی نے علم ِالہی اور علم مدنی پر دو کتابیں لکھی ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں۔ ان میں سے ایک” سیاستِ مدینہ“ کے نام سے مشہور ہے اور دوسری کا نام” سیرت فاضلہ“ ہے۔ ان دونوں میں فارابی نے کمال وضاحت کے ساتھ ارسطو کے مذہب کے مطابق جو اُس نے ” ستہ روحانیہ“ میں اختیار کیا ہے۔، علمَ الہی کی تشریح کی ہے، اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان مبادی روحانیہ سے کس طرح جوہر جسمانیہ اس تنظیم اور حکمت کے ساتھ جیسا کہ وہ واقعی پائے جاتے ہیں، مستنبط ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد انسان کے مراتب اور اس کے قوائے نفسی سے بحث ہے اور وحی و فلسفے کے فرق کو واضح کیا ہے، اعلیٰ اور ادنیٰ مدنیت کی اقسام بیان کیں ہیں۔ یہ بھی بتلایا ہے کی تمدن کس حد تک سیرتِ ملکیہ اور نوامیس نبویہ کا محتاج ہے۔ اس کے بعد اُس نے ان مختلف عناصر سے بحث کی ہے جن سے انسانی طبیعت اور نفس کے خواص کی تکوین ہوتی ہے اور وحی وحکمت کے فرق کو واضح کیا ہے۔ منظم اور خیر منظم جماعت کی تشریع کی ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ کس طرح تمدن کے لیے سیاسی حکومت اور دینی شریعت ناگزیر ہے۔ فارابی نے بغداد سے شام کا سفر کیا۔ حلب کے امیر سیف الدولہ کے دربارمیں پہنچے اور تادم مرگ امیر کے ہمراہ رہے۔ دسمبر 950ءمیں اسی برس کی عمر میں دمشق میں انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔سیف الدولہ نے خود نماز پڑھائی۔ فارابی کا مشہور قول ہے کہ” حسن کے حصول کو ہدف بنانے والا فن فلسفہ کہلاتا ہے۔