کالم

اصل کامیابی حرکت وعمل سے عبارت ہے

مسجد قرطبہ کو دنیا کی خوبصورت ترین مسجد ہے، جسے اب حصہ گرجا گھر میں بدلا جا چکاہے تو دوسرا آثار قدیمہ قرار دیا گیا ہے۔اس کے داخلی دروازے پر مسجد کی جگہ چرچ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔اس کے ستونوں کے درمیان اب بھی مسلمان سلاطین کی عمارت سازی کے فن کے نقوش جھلکتے اور ماضی کی تابناک اور کربناک یادیں متحرک رہتی ہیں۔کبھی یہ ہفتوں مہینوں میں ایک آدھ بار کھولی جاتی تھی،اب یہاں ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔چنگیز وہلاکو کے بغداد میں سروں کے میناراٹھانے کے بعداسپین عالم اسلام کے المیے کی دوسری بڑی یادگار ہے۔جہاں مسلمانوں کی شکست،ان کے قتل عام،اسپین سے اخراج اور جبری عیسائی بنانے پر منتج ہوئی تھی۔تاریخ کے سینے پر یہ بات درج ہے کہ جب بھی کوئی قوم بندوق اور تلوار کو چھوڑ کر تن آسانیوں کی عادی اور باہمی اختلافات کا شکار ہوجاتی ہے،تودشمنوں کا غلبہ، قہر خداوندی بن کر اس پر ٹوٹتا ہے۔ مسلمانوں کی شکست کے بعدمسجد کے گرجے اور پھر آثار قدیمہ قرار دئیے جانے تک کئی غم انگیز کہانیاں جنم لیتی اور وقت کی دھول میں گم جاتی رہی ہیں ۔ اس مسجد کی تعمیر امیرعبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788)نے شروع کی تھی ۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایاتھا۔وہ چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجددمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس کو ایک نیا اسلامی مرکز مہیا کرے۔ جب عیسائیوں نے مسلمان سلاطین کو اسپین سے بے دخل کیا تو یہ مسجد،گرجے میں تبدیل کر دی ۔ مسلمانوں کی شکست کے ساڑھے چار سو سال بعد حضرت علامہ اقبال اپنے میڈرڈکے سفرکے دوران قرطبہ گئے۔ انہوں نے مسجد قرطبہ میں اذان دی تھی اور نماز ادا کی تھی ۔ آئینہ ئا قبال میں عبداللہ قریشی حضرت علامہ کے درج ذیل الفاظ نقل کرتے ہیں ”میری رائے میں اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار مسجد روئے زمین پر تعمیر نہیں ہوئی ۔ عیسائیوں نے بعد فتح قرطبہ اس مسجد میں جا بے جا چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے تھے ۔ انہیں اب صاف کر کے مسجد کو اصل حالت میں لانے کی تجویز کی جارہی ہے۔ میں نے ناظم آثار قدیمہ کی معیت میں جاکر بہ اجازت اس مسجد میں نماز ادا کی۔قرطبہ پر عیسائیوں کے تسلط کے ساڑھے چار سو برس گزر چکے ہیں۔ اس اسلامی عبادت گاہ میں یہ پہلی اسلامی نماز تھیاقبال مسجد کو دیکھ کر جس جذباتی اور روحانی انقلاب سے دوچار ہوئے تھے،وہ ایک عظیم نظم کی بنیاد بن گیا۔کہتے ہیں یہ نظم اسپین کے قیام کے دوران ہی کہی گئی تھی۔ اقبال کے دل پر مسجد کی عظمت اور خوبصورتی کے جو نقوش ، ثبت ہوئے تھے وہ پورے جاہ وجلال کے ساتھ نظم مسجد قرطبہ میں منور ہو گئے ہیں۔نظم پڑھتے ہوئے تحیر کی کیفیت ماضی کے جھرکوں میں بہت دور لے جاتی ہے اور کھوئے ہوں کی جستجو ماہ وسال کے قید سے آزاد ہو کر کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے، جب مسجد میں پانچوں وقت اذان کی آواز گونجا کرتی تھی اور دور ونزدیک کے لوگ کھینچے چلے آتے تھے ۔ حسرت وحیرت مسجد کی خوبصورتی پر متبسم ہوتی ہیں مگر اللہ کے ذکر سے خالی ہونے پربے انتہا دکھ ہوتا ہے ۔ اب لوگوں کی حیرتوں میں اضافے کےلئے آثار قدیمہ کے محکمہ نے اسے عام پبلک کےلئے کھول دیا ہے چونکہ یہ تاریخی یادگار قرار پائی ہے، اس لیے اب لوگ جوتوں کے ساتھ ٹہلتے نظر آتے ہیں۔مجھے حیرت و حسرت کے بیچ ان سسکتے ہوئے لمحوں کی صدائیں بھی سنائی دے رہی ہیں جب مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھااور انہیں زبردستی عیسائی بننے پر مجبور کیا گیاتھا۔عیسائی اب بھی وہاں اذان دینے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔چند برس قبل اسپین کے مسلمانوں نے گرجا کے حکام سے مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی اجاز ت طلب کی تھی مگر اسلامو فوبیا کا شکار اور مسلمانوں سے خائف تنگ نظری آڑے آگئی ۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔میں حضرت علامہ کی طرح پھراس وقت کو دیکھ رہا ہوں جب رواں دواں آب کبیر کے کنارے مسجد قرطبہ کے مینار کی بلندی سے ایک بار پھر اذان کی آواز گونجا کرےگی اور مسجد میں پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کی جائے گی۔ اقبال اس مسجد کو دائمی زندگی کی علامت قرار دیتے ہوئے ضروری قرار دیتے ہیں کہ دائمی زندگی جسے موت نکھارتی ہے،عشق لازول سے حاصل ہوتی ہے۔ان کے نزدیک انسان کے بنا کردہ اس دنیا کے تمام نقوش عارضی اور فانی ہیں مگر مرد مومن کے عشق کو جس میں اس کا خون جگر شامل ہوتا ہے فنا نہیں ہے اورعشق تخلیق و عمل کا محرک ہوتا ہے جسے خود دوام حاصل ہے۔یہی عشق انسان کے رگ وپئے میں سما کر اس کی روح کو منور کرتااور اسے اشیا کی ماہیت وحقیقت کا ادراک بخشتا ہے۔ اقبال انسان کے بلند مقام کی بات کرتے ہوئے اس حدیث کو شعر میں جامہ زیب کرتے ہیں کہ مومن کا قلب عرش الٰہی کی مانند ہے جہاں اللہ جلوہ گر ہوتا ہے ۔ ان کے بقول گرچہ انسان کی تخلیق انتہائی حقیر شے نطفے سے ہوئی ہے اور اس کی حد نیلے آسمان تک ہے مگر جب وہ اپنے پیکرِخاکی میں عشق کا جذبہ سموتا اور اپناتزکیہ نفس کرتا ہے تو اس کا قلب اللہ کی جلوہ گاہ بن جاتاہے۔نظم کے چوتھے بند میں اقبال مسجد کی طرف لوٹتے ہیں اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسجد قرطبہ! تیرے جلال جمال کے اظہار سے مومن کا جلال وجمال نمایاں ہے ۔ تیرے ستونوں کی مثال ایسی ہے جیسے نخلستان میں حسین کھجوروں کے درخت ہوں ۔ تیرے دروبام پر ایمن کا نور برستا ہے اور تیرا مینار جلوہ گاہ جبریل ہے جہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ اگرچہ مسلم قوم اسپین سے مٹ چکی ہے مگر اس دین براہیم کی محافظ اس قوم کو صفحہ ہستی سے کوئی نہیں مٹا سکتا ۔ نظم کے آخر میں اقبال مسلمانوں کو جہد مسلسل کا پیغام دیتے ہیں کہ زندگی کی اصل کامیابی حرکت وعمل سے عبارت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri